Antithetical Living and Witnessing

The following article, Antithetical Living and Witnessing, was authored by Prof. Herman Hanko and originally published on the PRCA website. It has been translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq.

متضاد زندگی گزارنا اور گواہی دینا

مصنف: پروفیسر ہرمن ہینکو

ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق

زبور 1:1 کے مبارک انسان کا حوالہ دیتے ہوئے جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطاکاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹھا بازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا ایک قاری بیان کرتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں مسیحی گواہی دینے کے لئے مجھے اس زبور سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شریروں کی صلاح پر چلنے، خطاکاروں کی راہ میں کھڑے ہونے اور ٹھٹھا بازوں کی مجلس میں بیٹھنے سے کیا مراد ہے؟ یعنی ہمیں عملی زندگی میں کن باتوں سے بچنا ہے اور اپنی ملازمت کی جگہ پر، پڑوسیوں کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ کس حد تک میل جول رکھنا ہے اور کس حد تک نہیں۔

یہ ایک اہم سوال ہے اور براہِ راست اصلاحی عقیدہ کی اہم تعلیم تضاد سے منسلک ہے۔ تضاد سے مراد خدا کے عہد کے فرزندوں اور شریروں کے درمیان وہ روحانی خلیج ہے جو پر نہیں ہو سکتی کیونکہ شریر اپنے باپ ابلیس کے تابع ہیں اور اُسی کے سے کام کرتے ہیں جبکہ خدا کے لوگ نئے سرے سے پیدا ہوتے ہیں اور فضل کے ذریعے اس دنیا میں نور کے فرزندوں کی طرح زندگی گذارنے کے لیے بلائے گئے ہیں تاکہ خدا کے عہد کی گواہی دیتے رہیں۔

لیکن مشکل اس لئے پیش آتی ہے کیونکہ جیسا مسیح نے فرمایا، ہم دنیا میں رہتے ہیں پر دنیا کے نہیں ہیں (یوحنا 15:17-16)۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا واسطہ غیر ایماندار لوگوں سے پڑتا رہتا ہے۔ شریر اور راست باز ایک ہی کارخانے یا دفتر میں کام کرتے ہیں۔ ایک ہی دکان سے خرید و فروخت کرتے ہیں۔ شریر اور راست باز اکثر آپس میں دور و نزدیک کے رشتے دار بھی ہوتے ہیں۔

یہ مسئلہ کئی صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے علما کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔روایتی رومی کاتھولک تعلیم یہ ہے کہ تضاد برقرار رکھنے کا طریقہ دنیا سے علاحدگی اختیار کرنا ہے۔ دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھیں۔ خانقاہوں میں جا کر گوشہ نشین ہو جائیں تاکہ دنیا کی آلودگی سے بچ سکیں۔ یہی پاکیزگی کا راستہ ہے۔ قدیم اینا بیپٹسٹس بھی اِسی طرز کی سوچ کے حامل تھے۔

بعض نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عام فضل کی تعلیم پیش کی۔ اس کے مطابق خدا کا عام فضل مشترکہ طور پر سب انسانوں کے لئے ہے اور مسیحی شریروں کے ساتھ میل جول رکھ سکتے ہیں اور مختلف مقاصد کے حصول کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہے۔ جب تک دونوں کے اہداف ایک ہوں (مثلاً مزدوروں کی بہتری، اسقاط حمل کا خاتمہ، ہم جنس پرستی کے خلاف جدوجہد اور غربت کا خاتمہ وغیرہ) یہ تعاون جائز بلکہ پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔

لیکن بائبلی اور اصلاحی تعلیم تضاد کے ان دونوں نظریات کو ردّ کرتی ہے اور خدا کے لوگوں کو زیادہ اعلیٰ اور بلند پایاں خدمت کی طرف بلاتی ہے۔ متضاد زندگی گذارنے کی اصل کنجی یہ ہے کہ دنیا میں اپنے مسیحی ایمان کی گواہی دی جائے۔ زبور 1، استثنا 28:33، 2 تواریخ 2:19، 2 کرنتھیوں 14:6 تا 1:7 اور بے شمار دیگر بائبلی حوالہ جات میں تضاد کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن خدا کے لوگوں کے لئے خدا کا حکم اور بلاوا یہ بھی ہے کہ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں (متی 16:5)۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عملی زندگی میں اصل آزمائش سامنے آتی ہے۔

یہاں مسیحی آزادی بھی شامل ہے۔ اپنی روشنی دوسروں کے سامنے کیسے چمکائیں کیونکہ ہر ایک انسان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ فوج میں شامل انسان کا طریقہ اس شخص سے مختلف ہو گا جو ایک غیر ایماندار شریک حیات کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک مسیحی ڈاکٹر کا طریقہ اس سے مختلف ہو گا جو ایسی جگہ کام کرتا ہے جہاں گالم گلوچ اور بے ادبی معمول کا حصہ ہوں۔ ہر شخص نے اپنے بلاوے اور حالات کے مطابق یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنی روشنی کیسے چمکائے۔

پہلی بات، کبھی بھی بابل کے گناہوں میں شریک نہ ہوں (مکاشفہ 4:18)۔ہمیں کسی بھی حالت میں بدی میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ نہ بے ایمان لوگوں کے ساتھ اور نہ ہی اپنی نجی زندگی میں۔ اگر کوئی ہمیں غلط کام کے لیے آمادہ کرے تو ہمیں نہ صرف انکار کرنا ہے بلکہ بحوالہ خدا کے کلام سے وجہ بھی بتانی ہے کہ خدا ہمیں ایسا کرنے کی کیوں اجازت نہیں دیتا۔

مزید یہ کہ ہمارے نیک کام مستقل اور واضح ہونے چاہئیں۔ ہماری روشنی تب چمکتی ہے جب ہم کبھی قسم نہ کھائیں ، کبھی سبت کی بے حرمتی نہ کریں، کوئی گندی بات ہمارے منہ سے نہ نکلے، اختیار والوں کا مذاق نہ اڑائیں۔ ہماری روشنی تب چمکتی ہے جب ہم وہ کام کریں جو جائز اور راست ہیں؛ کھانے کے وقت دعا کریں (کام کی جگہ پر بھی)، اپنے بیوی بچوں سے محبت رکھیں، خداوند کے دِن عبادت میں شریک ہوں، مصیبت اور آزمائش میں بھی خوش اور مطمئن رہیں اور خدا پر بھروسا رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے بات کریں۔ پطرس ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ جب ہماری روشنی دوسروں کے سامنے چمکتی ہے تو لوگ ہم سے پوچھیں گے کہ تمہاری امید کی وجہ کیا ہے۔ جب وہ یہ پوچھیں تو ہم اپنے مسیحی ایمان کا اچھا دفاع کریں (1 پطرس 15:3)۔پطرس اسے دفاع ایمان کہتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر وقت مستعد رہنا چاہیے کہ اپنے ایمان اور امید کے بارے میں بات کریں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنے ارد گرد موجود بدی کا پردہ فاش کریں۔ بدی کو بدی کہیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ خدا کا نام بے فائدہ لینا گناہ ہے اور خدا ایسے شخص کو بے گناہ نہیں ٹھہرائے گا۔ ہم شادی کے پاک بندھن کی پاکیزگی اور قول و فعل کی پاکیزگی کا دفاع کریں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں لوگوں کو توبہ اور مسیح پر ایمان کی طرف بلانا ہے۔ اگر ہم اپنے پڑوسی سے محبت رکھتے ہیں تو ہم یہی چاہیں گے کہ وہ بھی نجات پائے اور نجات توبہ اور ہمارے خداوند یسوع مسیح پر ایمان کے ذریعے ہی ملتی ہے۔

میرے والد نے مجھے ایک مسیحی کی کہانی سنائی جس کا شکوہ تھا کہ اُسے اُس کی مسیحی گواہی کی وجہ سے ستایا گیا اور پھر ملازمت سے نکال دِیا گیا۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں ٹینک بنانے والی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ جب اُس سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سارا دِن فیکٹری کے دیگر کارکنان میں منادی کرتا رہتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ سب سے پہلے اس کی گواہی یہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ پوری محنت اور دیانت داری سے اپنا کام کرے۔ اس کے بغیر اس کی گواہی کھوکھلی تھی اور اس کا نکالا جانا ظلم نہیں بلکہ وہ اِسی لائق تھا۔ لیکن اگر واقعی ایذا رسانی کا سبب ہماری گواہی ہے تو ہمیں خود کو مسیح کے غلام سمجھ کر اُسے برداشت کرنا چاہیے۔

گواہی کا مطلب ہر وقت مذہبی باتیں کرنا نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہم اپنے قیمتی موتی سوروں کے آگے ڈال رہے ہوتے ہیں (متی 6:7)۔ لیکن ہمیں وہاں خاموش بھی نہیں رہنا چاہیے جہاں ہمیں بولنا چاہیے ۔ ہماری ذمہ داری تب پوری ہوتی ہے جب وہ سب لوگ جن سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے یہ جان لیں کہ ہم مسیح کی خدمت کرتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اور کلام مقدس کے مطابق ایمان رکھتے اور زندگی گذارتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ بھی خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔

ہر شخص نے اپنی جگہ اور اپنے حالات کے مطابق یہ کام کرنا ہے۔ جیسا کہ پطرس کہتا ہے، حلم اور خدا کے خوف کے ساتھ۔ مقصد یہ ہے کہ خدا کی تمجید ہو تاکہ جب لوگ ہمارے نیک کاموں کو دیکھیں تو ہمارے آسمانی باپ کی تمجید کریں۔

وہ شخص جو جگہ جگہ جا کر لوگوں سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ نجات پا چکے ہیں لیکن خود عبادت میں شریک نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنے بچوں کو دِین داری کی تعلیم دیتا ہے ، ایک کمزور گواہ ہے اور اس کی گواہی کمزور ہے اور وہ اکثر غیر ایمانداروں سے زیادہ خدا کے کام کو نقصان پہنچانے کا موجب ٹھہرتا ہے۔

ہمارا کام اپنے پڑوسی سے محبت کرنا ہے یعنی وہ شخص جو ہمارے آس پاس ہے اور ہماری مدد کا محتاج ہوتا ہے۔ خدا نے اسے اس جگہ اِس لئے رکھا ہے تاکہ وہ بھی اپنے بلاوے کو جانے۔ آخرکار، وہ توبہ کرے یا نہ کرے، یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ خدا کا اپنا مقصد ہے۔ کیوںکہ اصل مقصد یہ ہے کہ خدا کی ستایش اور تمجید ہو، چاہے وہ اُس کے نجات کے کام کے ذریعے ہو یا شریروں کی منصفانہ سزا کے ذریعے۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment