Can I Interest You in a Cup of Coffee?

The following article, Can I Interest You in a Cup of Coffee?, was authored by Brian D. Dykstra and originally published on the CPRC website. It has been translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq.

کیا آپ ایک کپ کافی پینا چاہیں گے؟

مصنف: برائن ڈی. ڈائکسترا

ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق

سن 1862ء کی گرمیوں میں ملکی خانہ جنگی کے دوران میں امریکی ریاست کینٹکی شدید خشک سالی کا شکار تھی۔ایلی نوائے سے تعلق رکھنے والے ایک (وفادار وفاقی فوج) فوجی نے لکھا کہ خشک سالی اِس قدر شدید تھی کہ ندی نالے اور دریا بالکل خشک ہو چکے تھے یا ان میں بس معمولی، گرم اور بدبودار پانی بچا تھا جو پینے کے قابل نہیں تھا۔لیکن کینٹکی کے ایک قصبے پیری وِل کے قریب کچھ پانی موجود تھا۔

اوہایو کی یونین فوج چار ماہ کے سخت مارچ کے بعد پیاس سے نڈھال تھی۔ اُنہیں خبر ملی کہ پیری وِل میں پانی موجود ہے۔ مگر وہیں جنوب کی باغی فوج بھی موجود تھی۔ پھر بھی، اوہایو کی فوج کے لیے وقت آ چکا تھا کہ وہ اپنی پیاس بجھائے اور اُن لوگوں سے بدلہ لے جنہوں نے اُنہیں بے شمار پریشانیوں سے دوچار کیا تھا۔ دشمن کے ساتھ میدانِ جنگ میں آمنے سامنے ہونے کے بعد، یونین کے فوجیوں نے ایک ندی پر قبضہ کر لیا جس میں کچھ پانی کے جوہڑ باقی تھے۔50ویں اوہایو انفنٹری کے ایک فوجی نے اپنے گھر خط بھیجا جس میں لکھا تھا، جوانوں نے نے رات کے اندھیرے میں ایک تاریک تالاب سے پانی نکالا اور اُس سے اپنی کافی تیار کی۔

یقیناً ایک طویل، دھول سے بھرپور مارچ اور شام کی لڑائی کے بعد، یہ پانی ان کے لیے بہت بڑی نعمت رہا ہوگا۔ پیاسا جسم، خشک ہونٹ اور دھوپ میں لڑنے کے بعد، کوئی بھی مشروب کسی انعام سے کم محسوس نہیں ہوتا۔


ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے۔جب ہم تھک ہار کر گھر آتے ہیں دفتر سے، اسکول سے یا بازار کے جھمیلوں سے تو دل چاہتا ہے کہ بس کچھ دیر کے لیے چین ملے۔ تو ہم ٹی وی آن کرتے ہیں یا موبائل پر ڈرامے یا فلموں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جیسے تھکن اُتارنے کے لئے کوئی گرم گرم چائے یا کافی کا کپ ہو۔فلمیں اور ڈرامے سب کچھ دلچسپ لگتا ہے۔خوبصورت اداکار اور اداکارائیں، اُن کا فیشن اور لائف اسٹائل یہ سب کچھ بہت متاثر کرتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ان اداکاروں کو باصلاحیت اور تخلیقی مانتا ہے۔ اُنہیں معاشرتی طور پر آئیڈیل بنا دیا گیا ہے۔

لیکن ایک وقت تھا جب مسیحیوں کے درمیان بحث ہوتی تھی کہ کہا اداکاری ایک ایسا فن ہے جس میں مسیحی بھی حصہ لے سکتے ہیں؟ کیا ٹی وی پروگرام نقصان کا باعث ہیں؟ کیا وہ محض معاشرتی سبق سکھانے کا ذریعہ ہیں یا پھر جب اداکار گناہ کرتے کردار نبھاتے ہیں تو کیا وہ خود بھی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں؟

ڈرامائی تفریح وقت کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر بدل گئی ہے۔ ڈرامے ، فلمیں اور میڈیا اپنی حد پار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں اتنے عام انداز میں دکھایا جاتا ہے کہ ہم گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ میں نے ایک بار کالج کے طلبہ سے کہا، سوچو اگر گھر میں صرف ایک اصول ہو کہ آپ ٹی وی یا موبائل پر جو چاہیں، جتنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں لیکن جیسے ہی اُس میں خدا کا نام بے فائدہ لیا جائے، ٹی وی یا موبائل فوری طور بند کر دیا جائے۔ تو ٹی وی یا موبائل مزید کتنی دیر تک چلے گا؟ ایک طالب علم نے جواب دیا،زیادہ سے زیادہ 3 منٹ تک۔

یہ سب کچھ ہمیں اور ہماری اولاد کو متاثر کرتا ہے۔ جب گناہ کو بار بار عام، معمولی یا مزاحیہ چیز کے طور پر دکھایا جاتا ہے تو ہم گناہ کے تباہ کن نتائج کو محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔زنا مختلف شکلوں میں ڈراموں اور فلموں میں ایک مستقل موضوع بن چکا ہے۔کیا زناکاری واقعی کوئی مزاحیہ چیز ہے؟ کیا آپ اپنے کسی عزیز سے واقف ہیں جس کی زندگی زنا کے باعث برباد ہو گئی ہو؟ کیا ایسی بربادی پر ہنسا جا سکتا ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا خود کو زناکاری کے ذریعے کیوں ہنسانے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ یہ دیکھا جائے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر اِس کے بھیانک نتائج سے دوچار ہے۔


اب واپس چلتے ہیں 1862ء کے پیری وِل کی طرف۔ اگلی صبح وہی فوجی پھر روانہ ہونے کو تیار ہیں. انہوں نے اپنی کافی ختم کر لی ہے اور اپنے کپ دھو لیے ہیں۔ ایک جوان اس تالاب کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں سے رات کو کافی کے لئے پانی لیا گیا تھا۔ خط میں مزید لکھا تھا، اگلی صبح اُن کی کراہیت کا اندازہ لگائیے جب انہوں نے اُس تالاب میں ایک یا دو مردہ خچروں کو تیرتے دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ کافی کا ذائقہ خاصا مزے دار رہا ہوگا۔

یہی حال آج کے میڈیا کا ہے۔ ظاہری طور پرسب اچھا، تازگی بخش اورمزے دار لیکن اندر سے بدبودار، سڑا ہوا اور ناپاک۔

تو کیا اب بھی آپ کافی پینا چاہیں گے؟



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment