This article is the Urdu translation of John Dick’s God’s Decrees Cover Means & Ends, originally published in Lectures on the Acts of the Apostles, 2nd ed. (New York: Robert Carter & Brothers, 1857), pp. 393–395. John Dick (1764–1833) was Professor of Theology at the United Secession Church, Glasgow, Scotland. The original work is available on the New Hope Presbyterian Church website, and this translation into Urdu has been done by Pastor Arslan Ul Haq.
خدا کے ازلی اِرادے: اسباب اور نتائج
مصنف: جان ڈِک
ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق
اے پولس! نہ ڈر۔ ضرور ہے کہ تو قیصر کے سامنے حاضر ہو اور دیکھ جتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اُن سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی کی (اعمال 24:27)۔
تو پولس نے صوبہ دار اور سپاہیوں سے کہا کہ اگر یہ جہاز پر نہ رہیں گے تو تم نہیں بچ سکتے (اعمال 31:27)۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اگرچہ پولس نے پہلے ہی واضح طور پر بتا دیا تھا کہ اس سفر میں کسی کی جان نہیں جائے گی پھر بھی جب ملاح جہاز چھوڑ کر کشتی میں بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس نے خبردار کیا کہ اگر یہ جہاز پر نہ رہیں گے تو تم بچ نہیں پا سکتے۔ یہ دونوں باتیں کیسے ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں؟ اگر خدا کا ارادہ اور فیصلہ پولس اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کا تھا تو کیا یہ مقصد پورا نہیں ہونا چاہیے تھا، خواہ ملاح جہاز میں رہتے یا اسے چھوڑ دیتے؟ کیا خدا کے ازلی اِرادے حالات پر موقوف ہیں اور انسان کی مرضی اور اعمال کے سبب بدل سکتے ہیں؟ یہ اعتراض صرف اسی واقعے کے متعلق نہیں بلکہ خدا کے ازلی اِرادے کی تعلیم کے خلاف ہمیشہ سے کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر خدا کے ازلی اِرادے قطعی طور پر طے ہیں (یعنی سب کچھ پہلے سے ہی متعین اور مقرر ہے) تو پھر کسی نصیحت، کوشش یا ذمہ داری کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر سب کچھ پہلے سے مقرر ہے تو عمل کی ضرورت کیوں؟
یہ اعتراض ظاہری طور پر تو مناسب لگتا ہے مگر حقیقت میں ایک غلط سوچ سے جنم لیتا ہے۔ یہ نظریہ اس خیال پر قائم ہے کہ خدا کے فیصلے صرف نتائج کے بارے میں ہوتے ہیں، ان نتائج تک پہنچنے والے اسباب اور ذرائع کو شامل نہیں کرتے۔ ایسا خیال کرنا اعلیٰ و ارفع خدا کی پاک اور عمیق حکمت کو محدود کرنا ہے۔
جب خدا نے اپنے ازلی اِرادے میں کسی بات کو متعین و مقرر کیا ہے یعنی کچھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس کے ساتھ ہی یہ بھی مقرر کیا ہے کہ وہ بات کن واقعات کے سلسلے میں یا کن حالات کے نتیجے میں واقع ہو گی۔ پولس اور اس کے ساتھیوں کی سلامتی بھی اِسی اصول کے مطابق تھی اور اس بات کے ساتھ اس کا سبب بھی مقرر تھا کہ ملاح جہاز میں رہیں اور اسے چلانے کا انتظام کرتے رہیں یہاں تک کہ وہ ملتے کے ساحل تک پہنچ جائے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اگر اسباب استعمال نہ ہوں تو مقصد حاصل نہیں ہوگا، دراصل ایک بالکل سادہ اور واضح سچائی کو بیان کرنا ہے کہ خدا کے مقاصد اِسی طرح پورے ہوتے ہیں جیسے وہ پورے کیے جانے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسباب بھی خدا کے ازلی اِرادے کا حصہ ہیں، جس طرح نتائج یعنی خدا کے ازلی ارادے میں صرف انجام نہیں بلکہ اس تک پہنچنے کے اسباب اور ذرائع بھی شامل ہوتے ہیں۔
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.