Our Dwelling Place

Day 1 – Our Dwelling Place
Journey Through the Psalms: A Thirty-Day Devotional
Written by Mike Velthouse
Translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq
Translated and used by permission of the Reformed Free Publishing Association
Copyright © 2024. All rights reserved.

No part of this text may be reproduced, stored in a retrieval system, distributed to other web locations for retrieval, published in other media, mirrored at other sites, or transmitted in any form or by any means—for example, electronic—without the prior written permission from the publishers.

Reformed Free Publishing Association
1894 Georgetown Center Drive
Jenison, MI 49428
https://www.rfpa.org

پہلادِن: ہماری پناہ گاہ

مصنف: مائیک ویلتھاؤس

ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق

زبور 90

گھر کا لفظ آپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ ممکن ہے کہ آپ اس گھر کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں آپ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور شاید کسی پالتو جانور کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایسی جگہ جہاں وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ کا خیال رکھتے ہیں، آپ کے ساتھ مل کر ہنستے ہیں اور کبھی کبھی آپ کے ساتھ غمگین بھی ہوتے ہیں۔ گھر میں کمرے، دروازے، بستر اور چیزیں رکھنے کے لئے دراز اور الماریاں ہوتی ہیں۔ لیکن گھر کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اِسے مستقل رہائش کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ جب آپ صبح گھر سے اسکول کے لیے نکلتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ واپس اِسی جگہ آئیں گے۔ یہ آپ کا گھر ہے۔ اِسے پناہ گاہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

جب خدا نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کیا تو انہوں نے اپنے مصری گھروں کو چھوڑ دِیا۔ خدا نے انہیں کنعان کی سرزمین میں ایک نیا گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر ان کے گناہوں اور نافرمانی کی وجہ سے انہیں چالیس سال بیابان میں سفر کرنا پڑا۔ وہ مستقل گھر کی بجائے خیموں میں رہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ گنتی 33 باب میں ان بیالیس جگہوں کا ذکر ہے جہاں ان برسوں میں انہوں نے ڈیرے ڈالے۔ ذرا تصور کریں کہ پچیس لاکھ لوگ بیابان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ صرف خدا کی رہ نمائی کے سہارے سفر کر رہے تھے۔ ان کا کوئی مستقل گھر نہیں تھا۔

لیکن اُن کے پاس پناہ گاہ موجود تھی۔

یا رب! پشت درپشت تو ہی ہماری پناہ گاہ رہا ہے (آیت 1)۔ موسیٰ نے یہ زبور اس لیے لکھا کہ خدا کی وفاداری کو یاد کرے جب بنی اسرائیل کنعان میں داخل ہونے والے تھے۔ اُن گذشتہ چالیس برسوں میں جب اُن کے پاس کوئی گھر نہیں تھا، خدا اُن کا گھر، اُن کی پناہ گاہ رہا۔ تخلیق اور نجات کا باعہد خداوند جو ازل سے ابدتک خدا ہے (آیت 2) اُن کی پناہ، پردہ اور مسکن تھا۔ بنی اسرائیل کا چالیس برس تک زندہ رہنا بائبل مقدس کے بڑے معجزوں میں سے ایک ہے۔ زبور 78 بیان کرتا ہے کہ خدا نے انہیں کھانا اور پانی فراہم کیا۔ نہ ان کے تن کے کپڑے پرانے ہوئے اور نہ اُن کے پاؤں کی جوتی پرانی ہوئی (استثنا 5:29)۔ اور یقیناً آگ جلانے کے لیے لکڑی، سایہ، روشنی، سب اُسی نے دیا۔ خدا کی وفاداری کا اقرار کرتے ہوئے موسیٰ نے فرمایا، ابدی خدا تیری سکونت گاہ ہے اور نیچے دائمی بازو ہیں (استثنا 27:33)۔

موسیٰ نے یہ زبور اس وقت لکھا جب وہ انسانی زندگی کی مختصر مدت پر غور کر رہا تھا (آیت 10)۔ اس نے یہ زبور ایک مشکل سال کے اختتام پر لکھا جس کا ذکر گنتی 20 باب میں ملتا ہے۔اس باب کا آغاز اور اختتام اس کے خاندان کے دو افراد کی موت سے ہوتا ہے: آیت 1 میں اس کی بہن مریم اور پھر آیت 29 میں اس کے بھائی اور قریبی ساتھی ہارون کی موت سے۔ ان دونوں باتوں کے درمیان وہ واقعہ پیش آیا جب موسیٰ نے غصے میں آ کر چٹان پر لاٹھی ماری جبکہ خدا نے اسے چٹان سے بات کرنے کا حکم دیا تھا۔ اِسی نافرمانی کے باعث موسیٰ کو وعدے کی سرزمین میں جانے کی اجازت نہ ملی اور داخل ہونےسے پہلے ہی وہ مر جائے گا (آیت 12)۔

اس زبور میں موسیٰ مختلف چیزوں کے آنے اور چلے جانے کا بیان کرتا ہے جیسے دِن، سال اور گھاس۔دن اور سال شروع ہوتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں، آتے ہیں اور آہ کی طرح ختم ہو جاتے ہیں (آیت 9)۔ گھاس صبح اگتی ہے اور شام کو کٹتی اور سوکھ جاتی ہے (آیت 6)۔ اِسی طرح، اِس زمین پر ہماری رہائش بھی عارضی ہے۔ہماری زمینی پناہ گاہ یعنی رہائش کا بھی آغاز اور اختتام ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم مر جائیں گے تو ہماری آنکھیں فوراً کھل جائیں گی اور ہماری روح پہلی بار خدا کے ساتھ اپنے ابدی گھر اور پناہ گاہ کا تجربہ کرے گی۔

جب ہم اپنے گھر، اپنے کمرے، کھانے پینے، اپنے پیارے خاندان اور اپنی زمینی رہائش سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو کیا ہم اپنے آسمانی گھر اور ابدی پناہ گاہ کے بارے میں بھی سوچتے ہیں؟ غور کریں کہ عبرانیوں کا مصنف بیان کرتا ہے کہ ابرہام اور ابتدائی مقدسین کس قسم کے گھر کے مشتاق تھے، مگر حقیقت میں وہ ایک بہتر یعنی آسمانی ملک کے مشتاق تھے۔ اِسی لئے خدا اُن سے یعنی اُن کا خدا کہلانے سے شرمایا نہیں چنانچہ اُس نے اُن کے لئے ایک شہر تیار کیا (عبرانیوں 16:11)۔

یا رب! پشت در پشت تو ہی ہماری پناہ گاہ رہا ہے۔

اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے

یا زمین اور دنیا کو تو نے بنایا۔

ازل سے ابدتک تو ہی خدا ہے۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment