Reformation or Revival: What Does the Church Need?

The following article, Reformation or Revival: What Does the Church Need?, was authored by Ronald Hanko and originally published on the CPRC website. It has been translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq.

اصلاح یا روحانی بیداری: کلیسیا کو دراصل کس چیز کی ضرورت ہے؟

مصنف: رونالڈ ہینکو

ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق

یہ امر قابل قبول ہے کہ دورحاضرہ میں دیدنی کلیسیا کمزور، بٹی ہوئی اور سمجھوتہ پسند حالت کا شکار ہے مگر یہ بات قابل قبول نہیں کہ روحانی بیداری کی تحاریک جن کے بارے میں عام طور سمجھا جاتا ہے کہ اس کا حل ہیں۔

ہمیں لفظ بیداری سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ بائبل مقدس میں استعمال ہوا ہے۔ تاہم ، ہمارا ماننا ہے کہ جس طرح کی بیداری زیادہ تر لوگ چاہتے ہیں اور جس بیداری کے لیے وہ دعا کرتے ہیں، اس بیداری سے مختلف ہے جسکے بارے میں بائبل مقدس میں بیان ہوا ہے۔ ہم یہ نہیں مانتے کہ عام طور پر رائج تصورِ بیداری وہ چیز ہے جس کی کلیسیا کو آج ضرورت ہے۔

ہم ایسا اس لیے مانتے ہیں کیونکہ بیداری سے متعلق باتوں میں ایک لفظ جو زیادہ نمایاں ہے وہ ہے غیر معمولی۔ ایسی بیداری کے متوقع لوگوں کے مطابق روحانی بیداری غیر معمولی واقعات پر مبنی ہوتی ہے مثال کے طور پر بڑی تعدا د میں لوگوں کی روحانی تبدیلی ، بڑے اجتماعات اور روح القدس کی نعمتوں کے غیر معمولی ظہور وغیرہ۔

لیکن کلیسیا کو آج غیر معمولی چیزوں کی نہیں بلکہ عام اور بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے وہ چیزیں جو خدا کے کلام میں ہمیشہ سے موجود ہیں مگر ہم نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے۔ کلیسیا کو سب سے پہلے اپنے موجودہ اراکین کی روحانی پرورش، تعلیم اور نگہداشت کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ وہ ہزاروں نئے لوگوں کے ایمان لانے کے خواب دیکھے۔ یہ کام شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔

روح القدس کی غیر معمولی نعمتوں کے بارے میں سوچنے سے پیشتر ہمیں روح القدس کی عام نعمتوں، دیندارانہ مسیحی زندگی (گلتیوں 25:5-26)، خدا کی ساری مرضی کی منادی اور تعلیم (اعمال 27:20)، بائبلی نظامِ کلیسیا (جس میں حکومت بزرگوں کے ہاتھ میں ہو، کسی ایک شخص کے نہیں) اور روح اور سچائی پر مبنی عبادت (یوحنا 24:4) کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ یہ سب چیزیں آج کلیسیا میں مفقود ہیں۔

بائبل مقدس کی ان عام (جو درحقیقت عام نہیں) باتوں کی طرف واپسی کو ہم بیداری کہنے کی بجائے اصلاح کہنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں اگرچہ ہم الفاظ پر اختلاف نہیں کرتے۔

سولہویں صدی کی عظیم تحریک پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا حقیقی معنوں میں اصلاح تھی۔ یہ خدا کے کلام کی طرف واپسی تھی؛ کلام مقدس کی تعلیمات کی طرف، اس کی منادی و تدریس کی طرف، بائبلی کلیسیائی حکومت، نظم و ضبط (ضابطہ) اور عبادت کی طرف۔

یہ سب اور بہت سی دوسری عام مگر انتہائی ضروری چیزیں آج کلیسیا سے غائب ہیں۔ کلیسیا کے بچوں کو تعلیم نہیں دی جاتی۔ گھریلو عبادت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ خداوند کے دِن اتوار کی تکریم ختم ہوچکی ہے۔ جہاں کلیسیا میں بزرگ ہیں، وہ اکثر اپنے بُلائے جانے سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان کا انتخاب زیادہ تر مقبولیت یا سیاست پر مبنی ہوتا ہے۔عبادت رسمی بن گئی ہے، منادی سیاسی یا سماجی موضوعات پر مرکوز ہے اور بائبل مقدس کی بیشتر تعلیمات تقریباً مکمل طور پر فراموش کر دی گئی ہیں۔

اِسی سے متعلق مثال کے طور پر، سولہویں صدی کی اصلاحِ کلیسیا بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ صرف ایمان کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرائے جانےکے بائبلی عقیدے کی طرف واپسی تھی(نیک اعمال سے نہیں صرف ایمان سے)۔ آج یہ تعلیم نہ صرف شاذ و نادر ہی سنائی دیتی ہے بلکہ بمشکل ہر دس میں سے ایک مسیحی بھی یہ بیان کرنے سے قاصر ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ حالانکہ اسی سچائی کی سمجھ ہی انسان کو یسوع مسیح کے وسیلے سے خدا کے ساتھ صلح تک پہنچاتی ہے (رومیوں1:5)۔ بہت سے دوسرے بائبلی عقائد کے ساتھ بھی یہی حال ہے۔

ہمارا ماننا یہ ہے کہ دور حاضرہ میں بیداری میں دلچسپی دراصل کلیسیا کے مسائل کا فوری حل ڈھونڈنے کی کوشش ہے جبکہ اصل ضرورت اس سخت اور مسلسل کام کی ہے جو خدا کے کلام نے کلیسیا کے سامنے رکھا ہے یعنی ان عام ذمہ داریوں کو پورا کرنا۔ یہ کام کلیسیا کے عہدیداروں اور اراکین، دونوں کا فرض ہے۔ اسی کے ذریعے کلیسیا کی اصلاح اور تجدید ہو گی جیسا کہ تقریباً پانچ سو سال پہلے ہوا تھا۔ اس کے بغیر کلیسیا کے لیے کوئی امید نہیں۔ خدا اپنی شفقت سے ہمیں یہ حقیقی اصلاح عطا فرمائے، آمین۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment