The Biblical Qualifications for Elders and Deacons (An Exegesis of 1 Timothy 3:2–13)
Written by: Archibald Alexander Allison
Translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq
Translated and used with permission from the Committee on Christian Education of the Orthodox Presbyterian Church. This material originally appeared, in substance, in Ordained Servant (a publication of the Committee on Christian Education), vol. 3, pp. 80–96; and vol. 6, pp. 4–9, 31–36, 49–54.
بائبلی اہلیت برائے کلیسیائی بزرگان (ایلڈر صاحبان)
مصنف: آرچیبالڈ الیگزینڈر ایلیسن
ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق
تعلیم دینے کے لائق
پس نگہبان کو بے الزام۔ ایک بیوی کا شوہر۔ پرہیزگار۔ متقی۔ شایستہ۔ مسافرپرور اورتعلیم دینے کے لائق ہونا چاہیے۔ نشہ میں غل مچانے والا یا مار پیٹ کرنے والا نہ ہو بلکہ حلیم ہو۔ نہ تکراری نہ زر دوست۔ اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کرتا ہو اور اپنے بچوں کو کمال سنجیدگی سے تابع رکھتا ہو۔ (جب کوئی اپنے گھر ہی کا بندوبست کرنا نہیں جانتا تو خدا کی کلیسیا کی خبرگیری کیونکر کرے گا؟)۔ نومرید نہ ہو تاکہ تکبر کرکے کہیں ابلیس کی سی سزا نہ پائے۔ اور باہر والوں کے نزدیک بھی نیک نام ہونا چاہیے تاکہ ملامت میں اور ابلیس کے پھندے میں نہ پھنسے (1 تیمتھیس 2:3–7)۔
ڈھانچہ
یہ کلیسیا میں نگہبان کے لیے درکار دوسری لازمی نعمت یا صلاحیت ہے۔
توضیح
یہ اہلیت ایک اہم نعمت یا صلاحیت ہے جس کا خدا کلیسیا کے نگہبان میں ہونا ضروری قرار دیتا ہے۔
١۔ نگہبان سے کون مراد ہے؟
اِس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ اہلیت صرف کلام کے خادم (پاسبان) کے لیے ہے یا اُن تمام بزرگوں کے لئے بھی ہے جو گلہ کی نگہبانی کرتے ہیں؟ یہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ نگہبان کا لفظ انتظام کرنے والے اور تعلیم دینے والے بزرگان دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ جب ہم کلامِ مقدس کے متن کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ نگہبان (ایپی سکوپس یا بشپ) کو تعلیم دینے کے لائق ہونا چاہیے۔ ططس 5:1–7 میں پولس ططس کو لکھتا ہے، میں نے تجھے کریتے میں اِس لئے چھوڑا تھا کہ تو باقی ماندہ باتوں کو درست کرے اور میرے حکم کے مطابق شہر بہ شہر ایسے بزرگوں (پریسبیٹیروس یعنی بزرگ) کو مقرر کرے۔ جو بے الزام اور ایک ایک بیوی کے شوہر ہوں اور اُن کے بچے ایمان دار اور بدچلنی اور سرکشی کے الزام سے پاک ہوں۔کیونکہ نگہبان (ایپی سکوپس یعنی بشپ) کو خدا کا مختار ہونے کی وجہ سے بے الزام ہونا چاہیے۔۔۔ پولس نے ططس کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر میں پریسبیٹر مقرر کرے۔ پریسبیٹر سے مراد بزرگ ہے۔ یہ لفظ نئے عہدنامہ میں باسٹھ مرتبہ بزرگ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ططس کے حوالے میں متن کی روانی یہ ہے: اگر کوئی بے الزام ہو تو ططس اُسے بزرگ مقرر کر سکتا ہے کیونکہ نگہبان کو بے الزام ہونا چاہیے۔ اِس حوالہ میں آیت 5 میں بزرگ اور آیت 7 میں نگہبان کا لفظ استعمال کرتے ہوئے پولس ایک ہی طرح کے لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ پولس نے ططس کو ہر شہر میں کلام کے خادم مقرر کرنے کا حکم دیا (کیونکہ وہ بھی بزرگ ہوتے ہیں) لیکن نئے عہدنامہ کے مجموعی شواہد اس بات کی تائید نہیں کرتے۔
اوّل، نئے عہدنامہ میں اِس نمونہ سے ظاہر ہے کہ ایک خاص کلیسیائی جماعت میں کئی بزرگ گلہ کی نگہبانی کرتے ہیں۔ پولس بیان کرتا ہے کہ اُن میں سے بعض کلام سنانے اور تعلیم دینے میں محنت کرتے ہیں (یعنی سکھانے کے عمل میں) جبکہ بعض صرف انتظام کرتے ہیں (1 تیمتھیس 17:5)۔ ططس نے ہر شہر میں ایک سے زیادہ بزرگ مقرر کیے۔ یقیناً جب پولس نے ططس کو کمی پوری کرنے کا حکم دیا تو اُس کی کم از کم یہ خواہش تھی کہ ططس ایسے بزرگ مقرر کرے جو گلہ کا انتظام کریں اور اُس کی نگہبانی کریں جیسے افسس کی کلیسیا میں بزرگ گلہ کی نگہبانی کرتے تھے (اعمال 20 دیکھیں)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بزرگ (پریسبیٹر) ہی نگہبان (ایپی سکوپس) ہوتا ہے اور ططس 5:1–9 میں دی گئی اہلیتیں تمام بزرگوں پر لاگو ہوتی ہیں۔
دوم، نیا عہدنامہ میں لفظ بزرگ (پریسبیٹیروس) بنی اسرائیل میں بزرگ کے عہدے کے لیے مستعمل ہے۔ یہ بات اناجیل اور اعمال کی کتاب میں بارہا نظر آتی ہے۔ پرانے عہدنامہ میں بزرگ کا عہدہ اپنے کام کے لحاظ سے زیادہ تر انتظام کرنے والے بزرگ کے قریب تھا نہ کہ کلام کے خادم کے جو انتظام بھی کرتا ہے اور کلام سنانے اور تعلیم دینے میں محنت بھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بزرگ بنیادی طور پر گلہ کی نگہبانی اور جماعت کے انتظام کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
پولس اور برنباس نے اپنے پہلے رسالتی سفر کے اختتام پر ہر کلیسیا میں بزرگ مقرر کیے (اعمال 23:14)۔ پھر پولس، برنباس اور چند اور شخص رسولوں اور بزرگوں سے ملنے کے لیے یروشلیم گئے (2:15)۔ کلیسیا اور رسول اور بزرگ اُن سے خوشی سے ملے (آیت 4)۔ رسول اور بزرگ ایک اہم معاملے پر غور کرنے کے لیے جمع ہوئے (آیت 6)۔ رسولوں اور بزرگوں نے پوری کلیسیا کے ساتھ مل کر منتخب آدمیوں کو انطاکیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا (آیت 22)۔ رسولوں، بزرگوں اور بھائیوں نے انطاکیہ، سوریہ اور کلکیہ کے رہنے والے اُن بھائیوں کے نام خط لکھا جو غیر قوموں میں سے تھے (آیت 23)۔ یروشلیم میں رسولوں اور بزرگوں نے فیصلہ کیا (4:16)۔ اپنے آخری رسالتی سفر کے اختتام پر، جب پولس یروشلیم واپس جا رہا تھا تو وہ میلیتس میں رکا اور افسس سے کلیسیا کے بزرگوں کو بلایا۔ جب وہ اُس کے پاس آئے تو پولس نے اُنہیں تاکید کی کہ اپنی اور اُس سارے گلہ کی خبرداری کرو جس کا روح القدس نے تمہیں نگہبان (ایپی سکوپس) ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلہ بانی کرو۔ پولس نے نگہبانوں کو خبردار کیا کہ وہ جاگتے رہیں کیونکہ پھاڑنے والے بھیڑیے گلہ میں آئیں گے (17:20–38)۔ جب پولس یروشلیم پہنچا تو اُس نے یروشلیم کے تمام بزرگوں کو جو کچھ خدا نے اُس کی خدمت سے غیر قوموں میں کیا تھا مفصل بیان کیا (19:21)۔ یوں ہم اعمال کی کتاب میں دیکھتے ہیں کہ بزرگ ہی نگہبان ہیں، ایک کلیسیائی جماعت میں ایک سے زیادہ بزرگ (نگہبان) ہیں اور بزرگوں (نگہبانوں) کو حکم دِیا گیا ہے کہ وہ جماعت کی خبرداری کریں اور کلیسیا کی گلہ بانی کریں (یعنی انتظام اور رہنمائی کریں) تاکہ خدا کے لوگ بھیڑیوں اور غلط تعلیمات سے محفوظ رہیں۔
چہارم، یعقوب رسول کلیسیا کے بزرگوں کا ذکر کرتا ہے جو بیماروں کی عیادت کرتے ہیں اور خداوند کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کے لئے دعا کرتے ہیں (یعقوب 5:14)۔ یہ خدمت زیادہ تر گلہ بانی اور انتظام کے دائرے میں آتی ہے نہ کہ کلام سنانے اور تعلیم دینے کی خصوصی خدمت میں جو خاص طور پر کلام کے خادم کی ذمہ داری ہے۔
پنجم، رسول پطرس جو خود بھی ایک بزرگ تھا، اپنے پہلے خط میں بزرگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ خدا کے اُس گلہ کی گلہ بانی کرو جو تم میں ہے۔ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دِلی شوق سے۔ اور جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلہ کے لئے نمونہ بنو (1 پطرس 1:5–4)۔ پطرس بزرگوں کو یہ نصیحت نہیں کرتا کہ وہ عوامی طور پر وعظ اور تعلیم دے کر گلہ کی نگہبانی کریں بلکہ یہ کہ وہ نمونہ بنیں اور آقاؤں کی طرح حکومت نہ کریں۔ عوامی وعظ اور تعلیم دینے کی خاص خدمت گلہ کی نگہبانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ پطرس یہاں عوامی وعظ اور تدریس پر زور نہیں دیتا بلکہ عملی نگہبانی، نمونہ بننے اور درست انتظام کرنے کی طرف توجہ دِلاتا ہے۔
ششم، پطرس رسول خدا کے لیے گلہ بان اور نگہبان کے الفاظ استعمال کرتا ہے، کیونکہ پہلے تم بھیڑوں کی طرح بھٹکتے پھرتے تھے مگر اب اپنی روحوں کے گلہ بان اور نگہبان کے پاس پھر آ گئے ہو (1 پطرس 25:2)۔ ہم بھٹکی ہوئی بھیڑوں کی مانند تھے مگر اب لوٹ آئے ہیں اور اُن بھیڑوں کی طرح ہیں جو خدا کی حکمرانی، رہنمائی اور نگہداشت کے تحت زندگی گزارتی ہیں جو بھیڑوں کا بڑا چرواہا ہے (عبرانیوں 20:13)۔اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گلہ بانی اور نگہبانی کا مفہوم بنیادی طور پر دیکھ بھال، رہنمائی اورانتظام سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ صرف عوامی منادی اور تعلیم سے۔ بہت سے واعظ تعلیم دیتے ہیں مگر گلہ کی حقیقی نگہبانی نہیں کرتے۔ وہ گلہ کو وقت نہیں دیتے، اُس کے لئے کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی صبر رکھتے ہیں کہ اُس کی رہنمائی اور انتظام کریں۔ ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ آج بہت سی کلیسیائیں روحانی طور پر کمزور ہیں۔
ہفتم، فلپی کی کلیسیا کو خط لکھتے ہوئے پولس یوں مخاطب ہوتا ہے، فلپی کے سب مقدسوں کے نام جو مسیح یسوع میں ہیں نگہبانوں اور خادموں سمیت۔ اگر پولس نے یہاں صرف ایمانداروں، کلام کے خادموں اور ڈیکنوں کا ذکر کیا ہوتا اور انتظام کرنے والے بزرگوں کو نظرانداز کر دیا ہوتا تو یہ نہایت عجیب بات ہوتی۔ زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ پولس نگہبانوں کے لفظ سے کلیسیا کے تمام بزرگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے خواہ وہ تعلیم دینے والے ہوں یا انتظام کرنے والے۔
آخر میں، اگر 1 تیمتھیس 1:3–7 اور ططس 5:1–9 میں بیان کردہ اہلیتیں بزرگ کے عہدے کے لیے نہیں ہیں تو پھر بزرگ کے لیے اہلیتیں کہاں بیان کی گئی ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بائبل مقدس کلام کے خادموں اور ڈیکن صاحبان کے لیے اہلیتیں تو بیان کرے مگر بزرگ جیسے اہم عہدے کے لیے کچھ بھی نہ بیان نہ کرے حالانکہ بزرگ کا عہدہ کلیسیا کی بھلائی کے لیے نہایت اہم ہے؟
یہ بات قابل غور ہے کہ انتظام کرنے والے بزرگوں اور کلام کے خادم کے کام میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ نیا عہدنامہ ان دونوں کے کام میں ایک اہم فرق بیان کرتا ہے۔کلام کے خادم کا خاص کام یہ ہے کہ وہ کلام سنانے اور تعلیم دینے کے کام میں محنت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدس رسومات یعنی ساکرامنٹوں کی ادائیگی کرے۔ اس کے علاوہ، کلیسیا کے تمام بزرگ یا نگہبان کے لئے ایک جیسی ہی اصطلاحات مستعمل ہیں اور اُن کی ذمہ داریاں بھی ایک جیسی ہیں۔ دونوں پر کلیسیا کی گلہ بانی اور نگہبانی کی ذمہ داری ہے۔ پس نیا عہدنامہ بزرگ (پریسبیٹر) اور نگہبان (ایپی سکوپس) دونوں اصطلاحات کو کلیسیا کے تمام بزرگوں کے لیے استعمال کرتا ہے خواہ وہ جو صرف انتظام کرتے ہوں یا انتظام کے ساتھ ساتھ کلام سنانے اور تعلیم دینے میں محنت بھی کرتے ہوں۔ لہٰذا 1 تیمتھیس 1:3–7 میں بیان کردہ اہلیتیں کلام کے خادموں اور انتظام کرنے والے بزرگوں دونوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتی ہیں۔
٢۔ تعلیم دینے اور کلام سنانے میں فرق
تعلیم دینے کے لائق ہونے سے مراد لازمی طور پر منادی کرنے کے لائق ہونے کے مترادف نہیں ہے۔ نئے عہدنامے میں تعلیم دینا، منادی کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع سرگرمی ہے۔ منادی خدا کے کلام کا عوامی اعلان ہے۔ ہر وعظ کو جماعت کو تعلیم دینی چاہیے لیکن تعلیم میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جو منادی نہیں ہوتیں۔ مثلاً، یسوع نے فرمایا، جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اُسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں (یوحنا 28:8)۔ پیدائشی اندھے شخص نے فریسیوں کو یسوع مسیح کے بارے میں سکھایا (یوحنا 34:9)۔ یسوع نے وعدہ کیا کہ روح القدس ہمیں سب باتیں سکھائے گا (یوحنا 26:14)۔ پولس بیان کرتا ہے کہ اُس نے افسس میں گھر گھر جا کر تعلیم دی (اعمال 20:20)۔ 1 کرنتھیوں 14:11 میں پولس فرماتا ہے، کیا تم کو طبعی طور پر بھی معلوم نہیں کہ اگر مرد لمبے بال رکھے تو اُس کی بے حرمتی ہے؟ افسیوں 20:4–21 میں پولس لکھتا ہے، مگر تم نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی بلکہ تم نے اُس سچائی کے مطابق جو یسوع میں ہے اُسی کی سنی اور اُس میں یہ تعلیم پائی ہو گی۔ پولس تمام ایمانداروں کو حکم دیتا ہے کہ آپس میں تعلیم اور نصیحت کرو اور اپنے دِلوں میں فضل کے ساتھ خدا کے لئے مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گاؤ (کلسیوں 16:3)۔ پولس تھسلنیکیوں سے کہتا ہے کہ ثابت قدم رہو اور جن روایتوں کی تم نے ہماری زبانی یا خط کے ذریعہ سے تعلیم پائی ہے اُن پر قائم رہو (2 تھسلنیکیوں 15:2)۔ کسی کو خط لکھ کر تعلیم دینا منادی نہیں ہے۔ جب پولس 1 تیمتھیس 12:2 میں کہتا ہے، اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ چاپ رہے تو وہ صرف منادی کی بات نہیں کر رہا۔ جب عبرانیوں 12:5 بیان کرتی ہے، وقت کے خیال سے تو تمہیں استاد ہونا چاہیے تھا مگر اب اِس بات کی حاجت ہے کہ کوئی شخص خدا کے کلام کے ابتدائی اصول تمہیں پھر سکھائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام ایماندار منادی کرنے والے بنیں۔ مزید یہ کہ والدین اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، اساتذہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہیں اور یہ تمام تعلیم منادی نہیں ہوتی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب پولس یہ کہتا ہے کہ ایک نگہبان کو تعلیم دینے کے لائق ہونا چاہیے تو اس سے مراد متذکرہ بالا باتیں ہیں۔ بلکہ مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ تعلیم دینا منادی کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ ایک نگہبان تعلیم دینے کے لائق ہو سکتا ہے اور پھر بھی منادی کرنے کے لائق نہیں ہوسکتا۔ اصلاحِ کلیسیا کے زمانے سے اصلاحی کلیسیاؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ خدا کے کلام کی منادی کرنے والا اُن اصل زبانوں کو پڑھنے کے قابل ہو جن میں بائبل مقدس لکھی گئی تاکہ حق کے کلام کو درستی سے کام میں لائے۔ انتظام کرنے والے بزرگوں کے لیے یہ معیار ضروری نہیں کیونکہ وہ خدا کے کلام کی منادی اور مقدس رسوم کی ادائیگی کے لیے مقرر نہیں کیے جاتے۔
٣۔ اس تقاضے کا مقصد
کتابِ مقدس کے مطابق ہر بزرگ کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ منادی کرنے کے لائق ہو بلکہ یہ ہے کہ وہ تعلیم دینے کے لائق ہو۔ یونانی زبان میں تعلیم دینے کے لائق کے لیے جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ نئے عہدنامے میں صرف دو مرتبہ آیا ہے۔ دوسرا حوالہ 2 تیمتھیس 23:2–25 ہے۔ وہاں پولس تیمتھیس کو حکم دیتا ہے کہ بیوقوفی اور نادانی کی حجتوں سے کنارہ کر کیونکہ اُن سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے اور تعلیم دینے کے لائق اور بردبار ہو ۔ اور مخالفوں کو حلیمی سے تادیب کرے۔ شاید خدا اُنہیں توبہ کی توفیق بخشے تاکہ وہ حق کو پہچانیں۔ اور خداوند کے بندہ کے ہاتھ سے خدا کی مرضی کے اسیر ہو کر ابلیس کے پھندے سے چھوٹیں۔ یہ حوالہ خدا کے کلام کی منادی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کی صبر اور فروتنی کے ساتھ اصلاح کے بارے میں ہے جو درست تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں یعنی انہیں سچائی سکھا کرراہ راست پر لانا ہے۔ تیمتھیس کو یہی کرنا ہے نہ کہ لوگوں کے ساتھ بیوقوفی اور جاہلانہ بحثوں میں الجھنا ہے۔
یہی بات ہم بزرگ یا نگہبان کی اہلیتوں میں بھی دیکھتے ہیں جو ططس 5:1–16 میں بیان کی گئی ہیں۔ ایک بزرگ ایمان کے کلام پر جو اِس تعلیم کے موافق ہے قائم ہو تاکہ صحیح تعلیم کے ساتھ نصیحت بھی کر سکے اور مخالفوں کو قائل بھی کر سکے (آیت 9)۔ مزید، پولس کہتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ سرکش اور بیہودہ گو اور دغا باز ہیں خاص کر مختونوں میں سے۔ اِن کا منہ بند کرنا چاہیے۔ یہ لوگ ناجائز نفع کی خاطر ناشایستہ باتیں سکھا کر گھر کے گھر تباہ کر دیتے ہیں (آیات 10–11)۔ پھر پولس کہتا ہے، پس اُنہیں سخت ملامت کیا کر تاکہ اُن کا ایمان درست ہو جائے (آیت 13)۔
ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ بھٹک گئے ہیں اور اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ سچائی کے خلاف بولنے لگے ہیں اور سارے گھرانوں کو گمراہ کر رہے ہیں، اُنہیں صرف خدا کے کلام کی عوامی منادی اور تعلیم سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ منادی اور تعلیم اب بھی اُن کے لیے اہم ہے لیکن اگر بس یہی کافی ہوتا تو بزرگوں کے لیے لوگوں کے گھروں میں جانے کی ضرورت نہ ہوتی جس طرح ایک چرواہا بھٹکی ہوئی بھیڑ کے پیچھے جاتا ہے (دیکھیں زبور 176:119 اور لوقا 3:15–10)۔ جب کوئی شخص یہاں بیان کردہ انداز میں سچائی کی مخالفت کرتا ہے تو اُسے فوری طور پر اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ بزرگ درست تعلیم کے ساتھ اُس کے گھر جائیں، اُسے قائل کریں اور نصیحت کریں کہ وہ اپنی غلطی سے باز آ جائے۔ بعض اوقات بزرگوں کو اُسے سختی سے ملامت بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ گلہ کی نگہبانی اور گلہ بانی کا کام ہے تاکہ وہ سچائی میں قائم رہیں اور بھیڑیوں یا جھوٹی تعلیم سے ہلاک نہ ہوں۔ بزرگوں کو بھٹکنے والوں کو ڈھونڈنا اور نصیحت کرنا اور سچائی کی تعلیم کے ذریعے اُنہیں بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اِسی طرح بزرگوں کو وفادار بھیڑوں کو بھی تعلیم اور نصیحت کرنی چاہیے تاکہ وہ بھی بھٹک نہ جائیں۔
یہ سب کرنے کے لیے ایک بزرگ کو یہ اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ کلامِ مقدس تعلیم اور عملی زندگی کے بارے میں کیا فرماتا ہے۔ اُس میں تعلیم یا زندگی میں غلطی کو پہچاننے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اُسے کلامِ مقدس کی بنیاد پر کسی شخص کو اُس کی غلطی ظاہر کرنے اور سادہ انداز میں اُسے سچائی سکھانے کے قابل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے منادی کرنے یا حتیٰ کہ عوامی تعلیم دینے کی خاص صلاحیتیں ضروری نہیں لیکن یہی خدا کی کلیسیا کی نگہبانی کرنے والے چرواہے کے کام کا مقصد ہے جسے خدا نے خاص اپنے ہی خون سے مول لیا۔ کلیسیا میں نگہبانی کا یہی سب سے بنیادی پہلو ہے۔ پطرس رسول بالکل واضح کرتا ہے کہ بزرگ کی انتطامی خدمت کسی فیکٹری کے مالک جیسی نہیں ہوتی بلکہ ایک چرواہے کی سی ہوتی ہے جو تعلیم دینے اور عملی زندگی دونوں میں اچھی مثال قائم کرتا ہے اور صبر اور نرمی کے ساتھ بھیڑوں کی انفرادی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
اگرچہ اعمال 20 میں خاص طور پر تعلیم دینے کا ذکر نہیں ہے لیکن جو کام پولس افسس کے بزرگوں کے لیے بیان کرتا ہے وہ بالکل اسی سے مطابقت ر کھتا ہے جسے یہاں بزرگوں کے لیے تعلیم دینے کے لائق ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اعمال 17:20–38 میں پولس بزرگوں کو یہ نہیں کہتا کہ وہ کلام کی منادی کریں بلکہ یہ کہ اپنی اور اُس سارے گلہ کی خبرداری کرو جس کا روح القدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلہ بانی کرو۔ کیونکہ پھاڑنے والے بھیڑیے تم میں آئیں گے اور خود تم میں سے ایسے آدمی اُٹھیں گے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہیں گے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔
تعلیم دینے کے لائق ہونے سے متعلق جان کالون کی تفسیر ملاحظہ ہو، وہ جنہیں لوگوں کی نگہبانی سونپی گئی ہے، انہیں تعلیم دینے کے لیے اہل ہونا چاہیے۔ پولس عوامی منادی کی صلاحیتوں کی تعریف نہیں کر رہا بلکہ اس حکمت کی جس کے ذریعے خدا کے کلام کو اس کے لوگوں کے فائدے کے لیے درست طور پر لاگو کیا جائے۔ لارنس آر ایئرز کے مطابق، ایک بزرگ کو لوگوں کے ساتھ فرداً فرداً بات کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور کلام کو ہر شخص کی ضرورت کے مطابق لاگو کرنا چاہیے (ایلڈرز آف دِی چرچ، صفحہ نمبر 34)۔
حاصل کلام
١۔ پریسبیٹر (بزرگ) اور ایپی سکوپس (نگہبان) دراصل ایک ہی عہدے کے دو ہم معنی الفاظ یا مترادف ہیں جسے ہم عموماً بزرگ (ایلڈر) کہتے ہیں۔
٢۔ 1 تیمتھیس 1:3–7 میں دی گئی شرائط کلیسیا کے تمام بزرگوں پر لاگو ہوتی ہیں چاہے وہ صرف انتظام کریں یا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ کلام سنانے اور تعلیم دینے کے کام میں محنت بھی کریں۔
٣۔ تعلیم دینے اور منادی کرنے میں فرق ہے۔ جو شخص تعلیم دینے کے لائق ہو، ضروری نہیں کہ وہ منادی کرنے کے بھی لائق ہو۔ منادی کرنے کے لائق ہونا 1 تیمتھیس 3 میں تمام بزرگوں کے لیے شرط نہیں ہے۔
٤۔ اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ خدا نے کچھ آدمیوں کو اپنے کلام کی منادی کرنے کی نعمت بخشی، بلایا اور مخصوص نہیں کیا۔ مثال کے طور پر، پولس نے تیمتھیس کو کلام کی منادی کرنے کا حکم دیا (2 تیمتھیس 2:4)۔ یسوع اور رسولوں نے بھی خدا کے کلام کی منادی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بزرگ انتظام بھی کرتے ہیں اور کلام سنانے اور تعلیم دینے کے کام میں محنت بھی کرتے ہیں (1 تیمتھیس 17:5)۔ ایسے لوگ کلام کے خادم یا تعلیم دینے والے بزرگ کہلاتے ہیں۔
٥۔ خدا نے تمام بزرگوں کو منادی کرنے کے لیے یا حتیٰ کہ عوامی تعلیم دینے کے لیے بھی نہیں بلایا۔ اس نے کچھ کو منادی کے لیے اور کچھ کو عوامی تعلیم کے لیے کلیسیا کو عطا کیا ہے اور انہی کو اس کام کے لیے بلاتا ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ آدمیوں کو ان نعمتوں کے مطابق خدمت سونپے جو خدا نے انہیں دی ہیں۔
٦۔ خدا تمام بزرگوں کو انتظام کرنے، گلہ بانی کرنے، نگہبانی کرنے، خبردار رہنے اور کلیسیا کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بلاتا ہے۔ بزرگ کی انتطامی (اور اس سے وابستہ تمام ذمہ داریاں) خدمت میں تعلیم دینا بھی شامل ہے۔ اِسی لیے کلامِ مقدس یہ تقاضا کرتا ہے کہ بزرگ تعلیم دینے کے لائق ہو۔ خدا کے لوگوں کا انتطام کرنا محض عبادات کے اوقات مقرر کرنا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر خدا کے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور نصیحت کرنا ہے کہ وہ بائبل مقدس کے مطابق ایمان رکھیں اور زندگی گزاریں اور جو لوگ سچائی سے بھٹک جائیں انہیں تنبیہ اور ملامت کرنا ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو نجی طور پر صبر اور نرمی کے ساتھ تعلیم دینے کی مہارت درکار ہوتی ہے۔ بزرگوں کو یہ بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ جماعت نہ صرف خدا کے کلام کی عوامی منادی اور تعلیم سنے بلکہ اس کے مطابق زندگی بھی گزارے۔ یہ سب تعلیم دینے کے لائق ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک بزرگ کو جھوٹی تعلیمات کی پہچان ہونی چاہیے خواہ وہ اس کے اپنے خادم کی طرف سے ہوں یا دوسروں کی طرف سے، کلیسیا کے اندر ہوں یا باہر۔ اسے خدا کے کلام کی سچائی کے ذریعے انہیں روکنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اسے لوگوں کو یہ سکھانے کے قابل ہونا چاہیے کہ ان کے خیالات کس طرح کلامِ مقدس کے خلاف ہیں۔ ایک بزرگ کو ایمان اور زندگی کے معاملات میں خدا کے لوگوں کو بائبلی صلاح دینے کے قابل ہونا چاہیے۔ اس میں اجلاس میں فیصلے کرنے اور معاملات کا فیصلہ بائبلی اصولوں کے مطابق کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.