The Geneva Theses (1649)

The Geneva Theses (1649) were drafted by Theodore Tronchin (1582-1657), who was a Genevan delegate to the Synod of Dordt (1618-1619) and a grandson of Theodore Beza (1519–1605), and Antoine Léger (1594-1661), who wrote the preface to the Waldensian Confession (1662). The Geneva Theses were approved by that city’s Venerable Company of Pastors and signed on their behalf by the moderator, Joannes Jacobus Sartorius (1619-1690).

The Geneva Theses were written to oppose the theology of the heretic Moise Amyraut (1596-1664) (hence Amyraldianism), the most famous student and professor of the Academy of Saumur (hence Salmurianism) in western France. At the heart of Amyraut’s false doctrine of hypothetical universal grace, in both hypothetical universal election and hypothetical universal atonement, is the notion that God desires to save everybody head for head, including the reprobate—today known as the well-meant offer. The great Francis Turretin (1623-1687) signed and strenuously defended the Geneva Theses.

Source: James T. Dennison Jr., Reformed Confessions of the 16th and 17th Centuries, vol. 4 (Grand Rapids, MI: Reformation Heritage Books, 2014), pp. 418–422.
Translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq of the Reformed Church of Pakistan.

مقالاتِ جنیوا (1649ء)

ترجمہ کار: ارسلان الحق

تعارف

مقالاتِ جنیوا (1649ء) معروف مسیحی پروٹسنٹ مصلح تھیوڈور بیزا کے پوتے اور مجلس ڈارٹ (1618-1619ء) میں جنیوا کے مندوب تھیوڈور ٹرونشین(1582-1657ء) اور والڈینشیان اقرار الایمان (1662ء) کا دیباچہ تحریر کرنے والے انتوان لیجر (1594-1661ء) نے مرتب کئے۔ مقالاتِ جنیوا کو اُس شہر کی معزز انجمنِ پاسبانان نے منظور کیا اور اُن کی جانب سے اُن کے نگران (ماڈریٹر) جوہانس جیکوبس سارتوریوس (1619-1690ء) نے ان پر دستخط کئے۔

یہ مقالے اُس وقت کے ایک بدعتی موئیس ایمیرو (1596-1664ء) کی الٰہیات (ایمیرالڈین ازم) کی تردید کے لئے لکھے گئے۔ ایمیرو مغربی فرانس میں واقع سومور کی اکیڈمی کا سب سے مشہور طالب علم اور استاد تھا اور اِسی نسبت سے اس کے نظریات کو سوموریان ازم بھی کہا جاتا ہے۔ ایمیرو کی غلط الٰہیات کے مطابق، مفروضی عالم گیر فضل مفروضی عالم گیر چناؤ اور مفروضی عالم گیر کفارہ دونوں میں موجود ہے یعنی خدا دنیا کے ہر ایک انسان کو نجات کی پیشکش کرتا ہے بشرطیکہ وہ ایمان لائیں .اِس پیشکش کو خیر خواہی یا نیک نیتی پر مبنی پیشکش کہا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ خدا تمام انسانوں کو یہاں تک کہ اُنہیں بھی جنہیں وہ جانتا ہے کہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے (اور جنہیں اُس نے ازل سے ردّ کیا ہوا ہے) خیر خواہی سے نجات کی پیش کش کرتا ہے۔ عظیم اصلاحی عالم فرانسس ٹریٹن (1623-1687ء) نے نا صرف مقالاتِ جنیوا پر دستخط کئے بلکہ اِن کا بھرپور دفاع بھی کیا۔

مقالاتِ جنیوا

اوّل۔ ذاتی جرم یا قصورواری کے بارے میں

١۔ آدم کے پہلے گناہ (نافرمانی) کا جرم خدا کے ازلی ارادے اور انصاف کے مطابق پوری نسل انسانی پر محسوب ہوتا ہے۔ اُس گناہ کی وجہ سے انسانی فطرت میں بگاڑ آ گیا جو ہر اُس شخص میں موجود ہوتا ہے جو آدم کی نسل سے پیدا ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے انسان تین باتوں کی بنیاد پر خدا کے سامنے گناہ گار ٹھہرتا ہے، اوّل، قصورواری اس حقیقت سے ہے کہ ہم سب نے آدم میں گناہ گیا۔ دوم، فطرت کا بگاڑ گناہ کی سزا کے طور پر آدم اور اُس کی پوری نسل پر محسوب ہوا۔ سوم، وہ گناہ جو انسان بلوغت کی عمر میں خود کرتے ہیں۔

٢۔ جس طرح آدم کا گناہ اُس کی پوری نسل پر محسوب ہوتا ہے اُسی طرح مسیح کی راست بازی اُس کے برگزیدوں پر محسوب ہوتی ہے۔ آدم کا گناہ فطرت کے بگاڑ سے پہلے محسوب ہوتا ہے(یعنی پہلے مجرم ٹھہرائے گئے) اور مسیح کی راست بازی تقدیس سے پہلے محسوب ہوتی ہے۔

٣۔ آدم کے گناہ کا اثر ہم پر دو طریقوں سے ہوتا ہے، آدم کی نسل ہونے کے باعث اُس کا گناہ ہم پر محسوب ہوتا اور ہم گناہ آلود فطرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے ایک دوسرے سے منسلک اور ناقابل تقسیم ہیں۔ اگرچہ ان میں امتیاز کیا جا سکتا ہے جیسے ایک سبب ہوتا ہے اور دوسرا اُس کا نتیجہ۔ اسی وجہ سے ہماری فطرت میں جو بگاڑ ہے، وہ آدم سے منتقل ہوا کیونکہ ہم نے آدم میں گناہ کیا اور اُسی میں ہم قصوروار ٹھہرائے گئے۔

اُن کے نظریات کو ردّ کیا جاتا ہے

جو اِس بات کے انکاری ہیں کہ آدم کا گناہ اُس کی ساری نسل پر محسوب ہوتا ہے۔ اور جو بظاہر تو یہ کہتے ہیں کہ گناہ ہم تک منتقل ہوا ہے مگر درحقیقت وہ نہیں مانتے کہ فطری بگاڑ سب انسانوں میں سرایت کر چکا ہے۔

دوم۔ الٰہی تقادیر کے بارے میں

١۔ تقدیر کا موضوع گناہ میں مبتلا انسان ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے یا خدا کی دعوت اور بلاوے کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، وہی تقدیر کا ہدف ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان گناہ میں گرنے کے بعد بھی خدا کی قدرت اور مرضی سے نجات کے منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ خدا کی طرف سے چنا گیا ہو۔

٢۔ بائبل مقدس گاہے بہ گاہے نجات کے لئے چناؤ اور نجات کے ذرائع کو علاحدہ علاحدہ بیان کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نجات کے لیے انسان کا برگزیدہ کیا جانا ایک الگ پہلو ہے اور نجات کے ذرائع ایک الگ پہلو۔ مسیح کا دنیا میں آنا، اُس کا صلیب پر جان دینا یہ سب خدا باپ کے ازلی منصوبے کا حصہ تھا جو اُس کی اپنےبرگزیدہ لوگوں سے لازوال محبت کا نتیجہ ہے۔

٣۔ جن لوگوں کو خدا نے اپنی مرضی اور خوشنودی سے چنا، اُنہی کو اُس نے یسوع مسیح کو دیا اور اُنہیں نجات بخش ایمان دینے کا بھی اِرادہ کیا تاکہ وہ مکمل طور پر نجات پائیں اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں۔

٤۔ خدا کی بے پایاں محبت اور رحم ہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا اور اس کے ذریعے نجات کا ایک مکمل انتظام پہلے سے مقرر کر دیا۔ اِسی محبت کی بنیاد پر خدا انسان کو نجات بخش ایمان عطا کرتا ہے اور اسی ایمان کے ذریعے مسیح کی قربانی کے فوائد کو انسان پر لاگو کیا جاتا ہے۔ یہ سب فوائد ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہیں۔

اُن کے نظریات کو ردّ کیا جاتا ہے

١۔ جو یہ کہتے ہی کہ خدا میں ایسا نیک ارادہ پایا جاتا ہے جو ایمان اور توبہ کی شرط پر اُن لوگوں کو بچانے کی خواہش رکھتا ہے جو ہلاک ہو جاتے ہیں۔

٢۔ جو خدا کی محبت کو عام اور مشروط بنا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا چاہتا ہے کہ ہر انسان نجات پائے بشرطیکہ وہ مسیح پر ایمان لائے۔

٣۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا نے انتخاب سے پہلے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ پوری انسانیت پر رحم کرے گا۔

٤۔ جو لوگ دو طرح کی محبت خدا سے منسوب کرتے ہیں، ایک عام اور ابتدائی سب انسانوں کے لیے اور دوسری زیادہ واضح اور مخصوص ، صرف برگزیدہ لوگوں کے لیے۔

سوم۔ مخلصی کے بارے میں

١۔ چونکہ نجات کا انجام (یعنی ابدی زندگی) صرف اُنہی لوگوں کے لیے مقرر ہے جن کے لیے خدا نے نجات کے ذرائع بھی مقرر کیے ہیں، اس لیے یسوع مسیح کا دنیا میں آنا، اُس کی موت، اُس کا کفارہ دینا اور اُس کے وسیلے سے نجات بھی صرف اُنہی کے لیے مقرر ہے جنہیں خدا نے ازل سے صرف اپنے نیک ارادے سے ایمان اور توبہ عطا کرنے کے لیے چنا اور وقت مقررہ پر وہی خدا اُنہیں ایمان اور توبہ عطا کرتا ہے۔ بائبل مقدس اور تمام ادوار کی عملی شہادت اس نظریے کے خلاف ہے کہ نجات بخش فضل سب کے لیے عام اور یکساں ہے۔

٢۔ خدا باپ نے اپنی مرضی اور خوشنودی سے مسیح کو ایک درمیانی یعنی شفیع کے طور پر مخصوص افراد کے لیے مقرر کیا ہے جو اُس کے روحانی بدن یعنی کلیسیا کو تشکیل دیتے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے ازلی انتخاب کے مطابق ہوا۔

٣۔ مسیح نے خود اپنی مرضی سے فیصلہ کیا کہ وہ ان خاص لوگوں کے لیے جان دے گا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا مقصد کیا ہے اور اُس نے اپنی موت کے ذریعے نہ صرف بڑی قیمت ادا کی بلکہ اُس کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ ان مخصوص لوگوں کو یقینی نجات دے۔

٤۔ بائبل مقدس میں پائی جانے والی عمومی (عالمگیر نوعیت کی) آیات کا مطلب یہ نہیں کہ مسیح سب کے لیے مؤا اور اُس نے ہر ایک انسان کے لیے باپ کی مشورت اور اُس کی مرضی کے مطابق کفارہ دیا۔ اِن آیات کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ صرف مسیح کے لوگوں (یعنی اُس کی کلیسیا) کی مجموعی جماعت کے بارے میں ہیں یا نئے عہد کے دستور سے متعلق ہے جس میں تمام اقوام، قبیلوں اور اہل لغت تک بغیر کسی امتیاز کے خدا اپنے فضل سے کلام مقدس کی منادی کے ذریعے نجات کا پیغام پہنچاتا ہے اور اُن میں سے اپنی کلیسیا کو جمع کرتا ہے۔ یہی انجیل کی عالمی منادی کی بنیاد ہے۔

اُن کے نظریات کو ردّ کیا جاتا ہے

جو یہ مانتے ہیں کہ کہ یسوع مسیح نے ہر انسان کے لیے نجات کی نیت سے جان دی یا کہ اُس نے سب کے لیے نجات کا وعدہ مشروط طور پر کیا یعنی اگر وہ ایمان لاتے تو بچ جاتے۔ یا کہ بائبل مقدس سکھاتی ہے کہ مسیح نے سب انسانوں کے لیے کفارہ دیا۔ اور خاص طور پر وہ لوگ جو بائبل مقدس کی کچھ آیات جیسے حزقی ایل 21:18، یوحنا 16:3، 1 تیمتھیس 4:2 اور 2 پطرس 9:3 سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا سب انسانوں سے یکساں محبت کرتا ہے اور سب کو نجات دینا چاہتا ہے. یہ تفسیر درست نہیں ہے۔

چہارم۔ انسان کی فضل کی طرف سرشت کے بارے میں

١۔ چونکہ نجات کے لیے ضروری شرائط اُن اشخاص کے لیے ناممکن ہیں جو ردّ کیے گئے ہیں (یعنی جنہیں ابدی ہلاکت کے لیے مقرر کیا گیا ہے) لہٰذا یہ کہنا کہ اگر وہ ایمان لائیں اور توبہ کریں تو نجات پا سکتے ہیں، ایسا کہنا خدا کے ارادے کو ایک بے معنی، گمراہ کن اور بے فائدہ ارادہ ثابت کرتا ہے کیونکہ خدا کبھی کوئی ایسا ارادہ نہیں کرتا جو حقیقت میں پورا نہ ہو سکے۔

٢۔ فطری عقل و سمجھ یا ضمیر انسان کو نہ نجات کی طرف راغب کر سکتا ہے اور نہ ہی ِاس کے ذریعے انسان خدا سے نجات کے لیے مقرر کردہ مزید عقل و سمجھ حاصل کر سکتا ہے۔ نجات صرف خدا کے فضل سے ہے۔

اُن کے نظریات کو ردّ کیا جاتا ہے

١۔ جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ہر انسان کو نجات دہندہ کی طرف سے ایک عام اور عالمگیر دعوت دی گئی ہے اور یہ کہ ہر شخص، اگر وہ چاہےتو ایمان لا کر نجات پا سکتا ہے۔

٢۔ جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا اپنے ظاہر کردہ کردار کے مطابق ہر انسان کی نجات کا خواہش مند ہے۔

پنجم۔ ایمانداروں سے کئے گئے وعدوں اور اُن کے استحقاق کے بارے میں

١۔ زندگی کا وعدہ جو شریعت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، صرف دنیاوی اور وقتی نہیں بلکہ آسمانی اور ابدی بھی ہے۔

٢۔وہ ایماندار، جو مسیح کی پیدایش سے پہلے ایمان لائے تھے اُنہیں بھی وہی نجات دہندہ اور شفیع (یعنی مسیح بطور خدا کی طرف سے نجات کا ذریعہ) میسر تھا جو ہمیں ہے۔ انہیں بھی ہماری طرح لے پالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم خدا کو باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کا ایمان، ہماری طرح، مسیح کی آمد سے پہلے بھی مؤثر اور معتبر تھا۔

اُن کے نظریات کو ردّ کیا جاتا ہے

١۔ جو کہتے ہیں کہ شریعت کے تحت کیے گئے وعدے صرف وقتی یا دنیاوی نعمتوں سے متعلق تھے۔

٢۔ جو سمجھتے ہیں کہ پرانے عہد کے آبائے ایمان روح‌القدس کے وعدے سے ناواقف تھے۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment