The Lambeth Articles were drawn up by Dr. William Whitaker, Regius Professor of Divinity in Cambridge, with input from Dr. Richard Fletcher (Bishop of London), Dr. Richard Vaughan (Bishop-elect of Bangor) and Humphrey Tyndall (Dean of Ely).
The Articles were formally approved by the Archbishop of Canterbury (Dr. John Whitgift), the Archbishop of York (Dr. Matthew Hutton), the Bishop of London (Dr. Richard Fletcher), the Bishop-elect of Bangor (Dr. Richard Vaughan), and other prelates convened at Lambeth Palace, London (20 November, 1595). Dr. Whitgift, the Archbishop of Canterbury, sent the Lambeth Articles to the University of Cambridge a few days later (24 November, 1595), not as new laws and decrees, but as an explanation of certain points already established by the laws of the land.
At the Hampton Court Conference of King James I and several prelates with the leaders of the Puritans (January, 1604), Dr. Reynolds made the request that “the nine orthodoxal assertions concluded on at Lambeth might be inserted into the Book of Articles.” But the Lambeth Articles were never formally added to the Church of England’s Thirty-Nine Articles (1563). They were, however, accepted by the Dublin Convocation of 1615 and engrafted on the Irish Articles (1615), which are believed to have been largely the work of James Ussher, who was to become Archbishop of Armagh and Primate of All Ireland (1625-1656). In the Church of Ireland, the Lambeth Articles obtained for some time a semi-symbolical authority. It is stated that they were exhibited at the Synod of Dordt (1618-1619) by the English deputies, as the judgment of the Church of England on the Arminian controversy.
Sadly, today, most Anglican churches around the world have fallen into Arminian free-willism and worse, and the faithful Lambeth Articles are either unknown or rejected.
لامبتھ کے نکات 1595ء
ترجمہ کار: ارسلان الحق
تعارف
لامبتھ کے نکات کیمبرج یونیورسٹی کے شاہی معلم برائے الٰہیات ڈاکٹر ولیم وِٹیکر نے مرتب کئے۔ اس کام میں ڈاکٹر رچررڈ فلیچر (بشپ آف لندن)، ڈاکٹر رچررڈ وان (منتخب شدہ بشپ آف بینگور) اور ہمفری ٹینڈل (ڈِین آف ایلی) کی معاونت شامل تھی۔
لامبتھ کے نکات کو باضابطہ طور پر آرچ بشپ آف کنٹربری (ڈاکٹر جان وٹگفٹ)، آرچ بشپ آف یورک (ڈاکٹر میتھیو ہٹن)، بشپ آف لندن (ڈاکٹر رچررڈ فلیچر)، بشپ آف بینگور (ڈاکٹر رچررڈ وان) اور دیگر بشپ صاحبان کی طرف سے لندن کے لامبتھ پیلس میں 20 نومبر 1595ء کو منظور کیا گیا۔ چند دن بعد، 24 نومبر 1595ء کو آرچ بشپ وٹگفٹ نے یہ نکات کیمبرج یونیورسٹی کو ارسال کئے۔ یہ نکات ایک نئے دینی مسودہ یا قانون کے طور پر نہیں بلکہ اُن نکات کی وضاحت کے طور پر بھیجے گئے جو پہلے ہی ملکی قوانین کے تحت تسلیم شدہ تھے۔
جنوری 1604 ءمیں بادشاہ جیمس اوّل کی سربراہی میں ہونے والی ہیمپٹن کورٹ کانفرنس میں جہاں کئی بشپ صاحبان اور پیورٹین قائدین جمع تھے، ڈاکٹر رینالڈز نے یہ درخواست کی کہ لامبتھ میں منظور کئے گئے نکات کو بک آف آرٹیکلز میں شامل کیا جائے۔لیکن لامبتھ کے نکات کو کبھی بھی باضابطہ طور پر چرچ آف انگلینڈ کے انتالیس نکات (1563ء) میں شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم، 1615 ءمیں ڈبلن کانووکیشن نے اِن نکات کو تسلیم کیا اور آئرش آرٹیکلز (1615ء) میں شامل کیا جنہیں عام طور پر جیمس اسہر کا کام سمجھا جاتا ہے جو بعد میں آرماہ کے آرچ بشپ اور پورے آئرلینڈ کے بشپ (1625-1656ء) بنے۔ چرچ آف آئرلینڈ میں لامبتھ کے نکات کو کچھ عرصے تک خاص مقام حاصل رہا۔ مزید یہ کہ 1618–1619 ء میں ہالینڈ کے شہر ڈارٹ میں ہونے والی مجلس میں انگلینڈ کے نمائندوں نے اِن لامبتھ نکات کو پیش کیا تاکہ آرمینیئن اِزم کے خلاف چرچ آف انگلینڈ کا موقف واضح کیا جا سکے۔
صد افسوس کہ آج بہت سی اینگلیکن کلیسیائیں آرمینیئن اِزم بلکہ اس سے زیادہ بدتر تعلیمات کا شکار ہوچکی ہیں اور لامبتھ کے نکات جو بائبل مقدس کی سچائی سے تعلیم دیتے ہیں یا تو بھلا دئے گئے ہیں یا ردّ کر دئے گئے ہیں۔
لامبتھ کے نکات
١. خدا نے ازل سے بعض کو حیات ابدی کے لئے چن لیا اور بعض کو ابدی ہلاکت کے لئے ردّ کر دیا۔
٢۔ کسی شخص کے چنے جانے کی وجہ یہ نہیں کہ خدا نے پہلے سے جان لیا تھا کہ وہ ایمان لائے گا، نیک عمل کرے گا یا ثابت قدم رہے گا بلکہ یہ صرف خدا کی مرضی اور خوشنودی پر منحصر ہے۔
٣۔ جن لوگوں کو نجات کے لیے چنا گیا ہے، ان کی تعداد خدا کے علم میں طے شدہ ہے اور نہ اس میں کمی ہو سکتی ہے اور نہ اضافہ۔
٤۔ جن کو ردؔ کر دیا گیا ہے، وہ اپنے گناہوں کے سبب ضرور سزا پائیں گے۔
٥۔ سچا، زندہ اور راست باز ٹھہرانے والا ایمان اور تقدیس کرنے والا روح برگزیدہ لوگوں سے نہ تو جدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ان نعمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔
٦۔ حقیقی ایماندار ایمان کی مکمل یقین دہانی کے ذریعے جانتا ہے کہ اُس کے گناہ معاف ہو گئے ہیں اور اُسے مسیح کے وسیلے سے ابدی نجات حاصل ہے۔
٧۔ نجات بخش فضل ہر انسان کو نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ ہر کسی کے لیے میسر ہے، گویا کہ کوئی بھی اگر چاہے تو خود سے نجات حاصل کر لے۔
٨۔ کوئی بھی شخص اس وقت تک مسیح کے پاس نہیں آ سکتا جب تک خدا باپ اُسے یہ فضل عطا نہ کرے اور اُسے اپنی طرف کھینچ نہ لے۔
٩۔ یہ کسی انسان کی مرضی یا اختیار میں نہیں کہ وہ خود سے نجات حاصل کر سکے۔
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.