Introduction: The Importance of Doctrine

Introduction: The Importance of Doctrine
Doctrine According to Godliness
Written by Ronald Hanko
Translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq
Translated and used by permission of the Reformed Free Publishing Association
Copyright © 2018. All rights reserved.

No part of this text may be reproduced, stored in a retrieval system, distributed to other web locations for retrieval, published in other media, mirrored at other sites, or transmitted in any form or by any means—for example, electronic—without the prior written permission from the publishers.

Reformed Free Publishing Association
1894 Georgetown Center Drive
Jenison, MI 49428
https://www.rfpa.org

تعلیم بہ مطابق دِین داری

مصنف: رونالڈ ہینکو 

 ترجمہ کار: ارسلان الحق

تعارف: عقیدے کی اہمیت

دورِ حاضرہ میں عقیدے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ بہت سی انجیلی کلیسیاؤں میں لوگ عقیدے کے بارے میں اتنا کم جانتے ہیں کہ مسیحیت کی بنیادی باتیں بھی پوری طرح سمجھ نہیں پاتے۔ یہاں تک کہ وہ کلیسیائیں جو صحیح تعلیم دیتی ہیں، وہاں بھی لوگ عقیدہ سیکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ نوجوان اس سے بیزاری محسوس کرتے ہیں اور بڑے بزرگ اصلاحی عقائد کے صرف تھوڑے سے علم پر اکتفا کر لیتے ہیں۔

اس نقص کی ایک بڑی علامت یہ ہےکہ لوگ اکثر زیادہ عملی منادی اور تعلیم کے لیے بے چین رہتے ہیں یا عبادت کے دوسرے حصوں پر اتنا زور دینے لگتے ہیں کہ وعظ تقریباً بے معنی ہو جاتا ہے۔ واعظین کی جانب سے بھی باقاعدہ بائبلی تفسیر کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ کہانیاں سنانے، مثالیں دینے اور لوگوں کو محظوظ کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

خدا کے لوگوں کی شخصی زندگی میں عقیدے سے بے اعتنائی اور غفلت یوں ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اچھی اصلاحی کتابیں اور رسائل پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔کچھ لوگ کتابیں خرید کر بھی نہیں پڑھتے اور بعض تو خریدنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اگر کچھ پڑھا بھی جاتا ہے تو وہ محض سطحی ہوتا ہے، زیادہ تر کیسے کریں قسم کا مواد۔ گہری فکری کتابیں تقریباً نہ ہونے کے برابر پڑھی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ عقیدے کی کتابوں کو مشکل سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے باپ دادا جن کی تعلیمی قابلیت عصر حاضر کے مقابلے میں کم تھی، الٰہیات کے مطالعے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔

اگر کلیسیا اور خدا کے لوگوں کی زندگیاں عدم معرفت، زوال اور اُن تمام مسائل سے بچانی ہیں جن سےآج ہم دوچار ہیں تو ہمیں عقیدے کی طرف واپس آنا ہوگا۔ ثبوت کے لئے ، اس کی ایک روشن مثال سولہویں صدی کی عظیم تحریک اصلاح کلیسیا ہے۔سب سے بڑھ کر اس تحریک کا مقصد مسیحی عقیدے کی طرف واپسی تھا۔ عقائد ، صرف ایمان کے ذریعے تصدیق، خدا کے خودمختار اور حاکمانہ فضل، علم الکلیسیا اور ساکرامنٹوں سے متعلق تعلیم۔ عقیدے کی طرف رجوع کئے بغیر کلیسیا میں بیداری یا تجدید کی کوئی امید نہیں۔

٢ تیمتھیس 16:3–17 میں بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کا کلام کئی باتوں کے لیے فائدہ مند ہے لیکن سب سے پہلے تعلیم کے لیے۔ اگر یہ ہمیں پہلے تعلیم (عقیدہ) نہ سکھائےتو الزام، اصلاح اور راست بازی میں ہدایت اور رہنمائی کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ ان سب کے لیے تعلیم نہ صرف اوّل درجہ رکھتی ہے بلکہ بنیاد بھی ہے۔

بائبل مقدس دیگر حوالہ جات میں بھی عقیدے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ یوحنا 3:17 سے ہم سیکھتے ہیں کہ خدا اور یسوع مسیح کو جاننا ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اِس سے زیادہ کوئی اور بات اہمیت نہیں رکھتی۔ صحیح تعلیم ہمیں خدا اور اس کے بیٹے کو پہچاننا سکھاتی ہے۔کتابِ مقدس کا مقصد بھی یہی ہے۔ یسوع فرماتا ہے، تم کتاب مقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے (یوحنا 39:5)۔

پس آئیں، عقیدے پر دھیان دیں۔ یہ صرف الٰہیات کے علما کا میدان نہیں بلکہ ہر اس شخص کی ضرورت ہے جو ہمیشہ کی زندگی چاہتا ہے۔ اسے کسی عملی چیز کی خاطر ایک طرف نہ رکھیں بلکہ اس بات کو سمجھیں کہ عقیدہ ہی ہمیں تادیب کرتا ہے، ہماری اصلاح کرتا ہے اور ہمیں راست بازی کی راہ دکھاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ہمیں زندہ خدا کے روبرو لاتا ہے جس میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے ہیں۔ عقیدے کے بغیر ہم خدا کی پہچان سے محروم رہتے ہیں۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment