A Friendship Betrayed

Day 16 – A Friendship Betrayed
Journey Through the Psalms: A Thirty-Day Devotional
Written by Mike Velthouse
Translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq
Translated and used by permission of the Reformed Free Publishing Association
Copyright © 2024. All rights reserved.

No part of this text may be reproduced, stored in a retrieval system, distributed to other web locations for retrieval, published in other media, mirrored at other sites, or transmitted in any form or by any means—for example, electronic—without the prior written permission from the publishers.

Reformed Free Publishing Association
1894 Georgetown Center Drive
Jenison, MI 49428
https://www.rfpa.org

سولہواں دِن: دوستی کا دھوکا

مصنف: مائیک ویلتھاؤس

ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق

زبور 55

داؤد ایک بار پھر جان بچا کر بھاگ رہا ہے۔ مگر اِس بار صورت حال مختلف ہے۔ یہ وہ وقت نہیں جب وہ نوجوان تھا اور ساؤل، دوئیگ یا فلستیوں سے بھاگ رہا تھا۔ اب وہ چونسٹھ سالہ بادشاہ ہے اور اُسے اپنے ہی بیٹے ابی سلوم سے خطرہ ہے۔ اسے خبر ملی کہ ابی سلوم حبرون سے ایک بڑی فوج کے ساتھ یروشلیم کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ بادشاہت اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اپنے بیٹے سے لڑنے کی بجائے، داود نے بہتر سمجھا کہ شہر چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر چلا جائے۔

اپنے خاندان، خدمت گزاروں اور چھ سو بہادر سپاہیوں کے ساتھ، وہ یروشلیم سے مشرق کی جانب نکلا، قدرون کی وادی پار کی اور زیتون کے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ ذرا اس منظر کا تصور کریں کہ سب کے سب روتے ہوئے، سر ڈھانپے، ننگے پاؤں چل رہے ہیں (2 سموئیل 30:15)۔ زبور 55 میں داؤد اقرار کرتا ہے کہ اس کا دِل بیتاب ہے اور موت کا ہول اُس پر چھا گیا ہے۔ خوف اور کپکپی اُس پر طاری ہے (آیات 4–5)۔

اگرچہ بیٹے کی بغاوت نے اسے غمگین کیا تھا مگر جس بات نے اس کے دِل کو سب سے زیادہ زخمی کیا وہ ایک قریبی دوست کی بے وفائی تھی۔

اخیتفل پورے اسرائیل میں عقل و حکمت کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ وہ داؤد کا نہایت قابلِ اعتماد مشیر تھا اور لوگ اس کی بات کو ایسا سمجھتے تھے کہ گویا خدا کے کلام سے آدمی نے بات پوچھ لی (2 سموئیل 23:16)۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ ابی سلوم داؤد کے تخت کو الٹنے والا ہے تو وہ داؤد کا ساتھ چھوڑ کر اُس کے دشمن ابی سلوم کے ساتھ جا ملا۔ یہ دھوکا داؤد کے لیے بہت گہرا زخم تھا۔

زبور 12:55–14 میں داود کہتا ہے کہ اگر یہ دھوکا کسی دشمن کی طرف سے ہوتا تو وہ برداشت کر لیتا۔ مگر یہ دھوکا اس شخص کی طرف سےملا جو اُس کا ہمسر، رفیق اور دِلی دوست تھا۔ وہ شخص جس کے ساتھ وہ خدا کے گھر جاتا تھا۔ تصور کریں کہ داؤد پہاڑ کی ڈھلوان پر سر جھکائے بیٹھا ہے جیسے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔

مگر سوال یہ ہے کہ اخیتفل نے داؤد کو دھوکا کیوں دیا؟ جواب اُس کے خاندان میں چھپا ہے۔ اخیتفل کا بیٹا الی عام تھا جو داؤد کے بہادر سپاہیوں میں شامل تھا (2 سموئیل 34:23)۔ الی عام کی بیٹی بت سبع تھی (11:3)۔ جی ہاں، وہی بت سبع۔ وہ اخیتفل کی پوتی تھی۔ داود نے اسی بت سبع کے ساتھ زِنا کیا اور پھر اخیتفل نے یہ بھی دیکھا کہ اس کے داماد اوریا کو داؤد کے حکم سے جنگ میں مروایا گیا۔ پھر اس پر مزید دکھ کی بات یہ کہ بت سبع کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا وہ کچھ ہی دِنوں بعد مر گیا۔ اخیتفل کے لیے یہ سب داؤد کے گناہ کی سزا تھی جو اُس کے سامنے ظاہر تھی۔

یہ درد اور تلخی سالوں تک اس کے دِل میں جمع ہوتی رہی۔ اب اسے داؤد سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا تھا۔ اُس کا منہ مکھن کی مانند چکنا تھا پر اُس کے دِل میں جنگ تھی۔ اُس کی باتیں تیل سے زیادہ ملائم پر ننگی تلواریں تھیں (زبور 21:55)۔

اخیتفل نے ابی سلوم کو پہلا مشورہ کیا دِیا؟ کہ وہ جا کر ان دس حرموں سے مباشرت کرے جنہیں داؤد محل کی نگہبانی کے لیے چھوڑ گیا تھا اور یہ کام چھت پر سب کے سامنے کرے۔ تاکہ پورے ملک میں داؤد کی انتہائی تذلیل ہو۔ افسوس کہ ابی سلوم نے اس کی بات مان لی۔ اخیتفل کے نزدیک یہ داؤد سے اُس سب کا بدلہ تھا جو کچھ داؤد نے اُس کی پوتی اور اس کے شوہر کے ساتھ کیا تھا۔

لیکن اس بار داؤد نے حالات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی رہنمائی کرنے والا اور مدد کرنے والا کون ہے۔ پر میں تو خدا کو پکاروں گا اور خداوند مجھے بچا لے گا (آیت 16)۔ اے خداوند! تو اُن کو ہلاک کر اور اُن کی زبان میں تفرقہ ڈال (آیت 9)۔

خدا کی قدرت سے داؤد کا دوست حوسی ابی سلوم کی فوج میں شامل ہوا اور داؤد سے بے وفائی کا تماشہ کیا۔ ابی سلوم نے اخیتفل اور حوسی دونوں سے اپنے اگلے قدم کے بارے میں صلاح مانگی۔ حوسی نے جان بوجھ کر ایسا منصوبہ پیش کیا جو داؤد کے لیے فائدہ مند تھا۔ خدا نے ابی سلوم کو حوسی کی بات ماننے پر مائل کیا اور یہی زبان میں تفرقہ تھا۔

حوسی کے منصوبے نے داؤد کو وقت دیا کہ وہ یردن پار کر کے دوبارہ منظم ہو، اپنی طاقت بحال کرے اور آخرکار اپنی بادشاہت واپس لے لے۔ اخیتفل یہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے گھر جا کر خود کشی کر لی۔ کیسا افسوسناک انجام ہے۔

کیا آپ اِس کہانی میں مسیح کو دیکھتے ہیں؟ اِسی زیتون کے پہاڑ پر، گتسمنی کے باغ میں، اُسے بھی ایک دوست نے دھوکا دِیا۔ وہ بھی مسح کیا ہوا بادشاہ تھا جسے لوگوں نے ٹھکرا دیا۔ اِسی جگہ اُس کی جان نہایت غمگین ہوئی یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی۔ کیونکہ مسیح نے بھی ایسے ہی دکھ برداشت کیے اِس لئے ہم ضرورت کے وقت اُس کے پاس آ سکتے ہیں (عبرانیوں 15:4–16)۔ کیا آپ نے کبھی کسی دوست، ساتھی یا گھر والے کے ہاتھوں دھوکا کھایا ہے؟ صبح وشام اور دوپہر کو میں فریاد کروں گا اور کراہتا رہوں گا اور وہ میری آواز سن لے گا (زبور 17:55)۔ اپنا بوجھ خداوند پر ڈال دے۔ وہ تجھے سنبھالے گا (آیت 22)۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment