The Antithesis

The following article, The Antithesis, is taken from the book Doctrine According to Godliness by Ronald Hanko, published by the Reformed Free Publishing Association (RFPA), Jenison, Michigan, in 2004 (pages 208–209). It has been translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq of the Reformed Church of Pakistan. 

تضاد

مصنف: رونالڈ ہینکو  (تعلیم بہ مطابق دِین داری، صفحہ نمبر 208 اور 209)

ترجمہ کار: ارسلان الحق

گاہے گاہے اصلاحی علما تضاد کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی اور تاریکی، ایماندار اور بے ایمان، کلیسیا اور دنیا کے مابین علاحدگی اور تضاد پایا جاتا ہے۔

یہ تضاد خدا کے نجات بخش فضل کا نتیجہ ہےاور اگرچہ یہ لفظ بائبل مقدس میں براہ راست استعمال نہیں ہوا لیکن اس کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔ سب سے واضح طور پر اِسے 2 کرنتھیوں 14:6-18 میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات میں نہ صرف اِس تضاد کو بیان کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عملی زندگی میں اس کا کیا مطلب ہے۔ ان آیات میں تضاد کو راست بازی اور بے دِینی، روشنی اور تاریکی، مسیح اور بلیعال، ایمان اور بے ایمان، خدا کے مقدس اور بتوں کے درمیان فرق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اُن میں سے نکل کر الگ رہنا چاہیے (آیت 17)۔

یہ علاحدگی روحانی ہے۔ ہمیں جسمانی طور پر دنیا سے الگ ہونے یا رہنے کے لیے نہیں بلایا گیا (1 کرنتھیوں 10:5)۔ یہی غلطی وہ لوگ کرتے ہیں جو راہب یا راہبہ بن جاتے ہیں یا شادی یا مخصوص کھانوں سے پرہیز کو لازم سمجھتے ہیں. تضاد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جسمانی طور پر خود کو دنیا یا دنیاوی چیزوں سے الگ کر لیں۔

اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ ہم شریروں کے کاموں میں شریک نہ ہوں (افسیوں 11:5-12) بلکہ حتیٰ کہ شریروں کے ساتھ دوستی یا میل جول نہ رکھیں (2 کرنتھیوں 17:6، یعقوب 4:4)۔ اگرچہ ہمیں ان کے ساتھ رہنا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں دنیا میں رہ کر کاروبار اور زندگی کے دیگر معاملات نمٹانے ہوتے ہیں (1 کرنتھیوں 9:5-11) لیکن پاک زندگی بسر کرنے کے لئے ہمیں روحانی طور پر ان سے الگ رہنا ہے ۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں ہم عام فضل کی تعلیم سے اختلاف کرتے ہیں۔ عام فضل کا نظریہ یہ ہے کہ خدا کا عام فضل شریروں اور رد کیے گئے لوگوں کے لیے بھی ہے جو خدا کے لوگوں اور دنیا کے درمیان ایک مشترک بنیاد قائم کرتا ہے۔ اس نظریے کے تحت، بعض پہلوؤں میں، ایماندار شریروں کے ساتھ اشتراک کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ دوستی رکھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔الغرض کہ دونوں کو خدا کا فضل حاصل ہے۔

بائبل مقدس واضح کرتی ہے کہ کلیسیا اور خدا کے لوگوں کی خیر وعافیت برائی سے بھرپور شریر دنیا سے علاحدگی میں ہے۔ یہی بات ہمیں پرانے عہدنامے میں بھی نظر آتی ہے۔ استثنا 28:33 میں بیان کیا گیا ہے، اور اسرائیل سلامتی کے ساتھ یعقوب کا سوتا اکیلا اناج اور مے کے ملک میں بسا ہوا ہے بلکہ آسمان سے اُس پر اوس پڑتی رہتی ہے۔ نئے عہد نامہ میں بھی یہ سچائی قائم ہے۔ خدا کا وعدہ کہ میں تم کو قبول کر لوں گا اور تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہو گے۔یہ خداوند قادرِمطلق کا قول ہے۔ یہ وعدہ اُن کے لئے ہے جو خدا کے اِس حکم کی فرماں برداری کرتے ہیں کہ اُن میں سے نکل کر الگ رہو (2 کرنتھیوں 17:6-18)۔ آج ہمیں اس حکم کو سننے کی اشد ضرورت ہے۔

خدا اور اُس کی کلیسیا کی خاطر ہم میں سے ہر ایک کو الگ رہنا ہے۔ اگر ہم دنیا سے الگ نہیں رہیں گے تو خدا کا جلال ہماری زندگیوں سے ظاہر نہیں ہوگا اور کلیسیا دنیا کی مانند بن جائے گی یعنی اپنا روحانی مقام کھو دے گی۔



Discover more from Reformed Church of Pakistan

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Comment