The following article, What It Means to Be ”Reformed”, was authored by Prof. Herman Hanko and originally published on the CPRC website. It has been translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq.
اصلاحی ہونے سے کیا مراد ہے؟
مصنف: پروفیسر ہرمن ہینکو
ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق
۔۔۔اُس ایمان کے واسطے جانفشانی کرو جو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا (یہوداہ 3:1)۔
یہ خدا کا کلام ہے، خدا کا کلام جو کلیسیا کے لئے ہے۔ خدا کے کلام کی روشنی میں اس بات پر غور کرنا کہ اصلاحی ہونے سے کیا مراد ہے، ایک نہایت اہم موضوع ہے۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ دورِ حاضرہ میں لفظ اصلاحی (مصلح، ریفارمڈ) اس قدر مختلف معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے کہ اب عملاً اس کا کوئی واضح مطلب باقی نہیں رہا۔ بہت سی کلیسیائیں جو اپنے نام کے ساتھ لفظ ریفارمڈ کا استعمال کرتی ہیں، دراصل اپنی تعلیم اور عمل میں اصلاحی نہیں رہیں۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اصلاحی ایمان کی مخالف اور دشمن بن چکی ہیں۔
اِسی طرح بعض لوگ بھی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو اصلاحی کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جس کلیسیا سے وہ وابستہ ہیں وہ اپنے نام میں اصلاحی کا لفظ استعمال نہ کرتی ہو مگر وہ خود کو اصلاحی کہتے ہیں۔ اگر آپ ان سے پوچھیں، کیا آپ اصلاحی ہیں؟ تو وہ بلا جھجھک کہیں گے، جی ہاں، بالکل۔لیکن اگر آپ ان سے پوچھیں کہ اصلاحی ہونے کا مطلب کیا ہے یا یہ کہ آپ اپنے آپ کو اصلاح شدہ کیوں کہتے ہیں؟ تو وہ کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ انہیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ اصلاحی ہونے کا مطلب کیا ہے۔ وہ اس لفظ سے صرف اس لئے وابستہ رہتے ہیں کیونکہ یہ سننے میں اچھا لگتا ہے ، شاید اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے یا اس میں کوئی روایتی کشش ہے۔ مگر جہاں تک اصلاحی ہونے کے اصل مفہوم کا تعلق ہے، انہیں اس کی ذرا بھی سمجھ بھی نہیں ہوتی۔
یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ اصلاحی ہونے کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ یہ سمجھنا اہم ہے تاکہ اس بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ یہ بات میرے لیے بحث کا موضوع نہیں کہ آپ واقعی اصلاحی ہیں یا نہیں ، اگر آپ ہیں تو یہ اچھی بات ہے اور اگر نہیں تو آپ اپنے ایمان اور عقیدے کے لئے خود ذمہ دار ہیں۔ لیکن یاد رکھیں، ایک دن آپ کو آسمان و زمین کے منصف، یعنی خدا کے حضور، اپنے ایمان اور اپنے عقیدے کا جواب دینا ہوگا۔ میرا مقصد کسی کو اصلاحی یا غیر اصلاحی قرار دینا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ ہمیں لفظ اصلاحی کو یوں بے معنی انداز میں استعمال نہیں کرنا چاہیے جیسے اس کا کوئی خاص مطلب ہی نہ ہو۔ آئیں، ہم خدا کے سامنے، کلیسیا کے سامنے اور کلیسیا کے بادشاہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے سامنے ایمانداری اختیار کریں۔ اگر ہم اصلاحی ایمان کو قبول نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں یہ کہنے کی جرات ہونی چاہیے کہ اصلاحی ایمان ہمارے لیے نہیں۔ کیونکہ جب ہم اصلاحی ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہ کوئی الفاظ کا کھیل یا نظریاتی بحث نہیں بلکہ ایک سنجیدہ روحانی معاملہ ہے۔
میں اصلاحی ہوں۔ میں اِس لئے اصلاحی ہوں کہ میں پورے دل سے ایمان رکھتا ہوں کہ اصلاحی ایمان کلامِ مقدس کی سچائی ہے۔ اور کلامِ مقدس کی سچائی انتہائی اہم ہے کیونکہ یہی فردوس اور جہنم کے درمیان فرق کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ہم کھیل نہیں کھیل رہے، ہم محض لفظوں کے معنی پر بحث نہیں کر رہے بلکہ ہم ایسے حقائق پر گفتگو کر رہے ہیں جو ابدی اہمیت رکھتے ہیں ، کلامِ مقدس کی سچائی، خدا کی سچائی اور ہماری نجات کی سچائی۔
آج بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اصلاحی کہتے ہیں مگر ان میں بہت فرق ہے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو اصلاحی کہتے ہیں اور ساتھ ہی خود کو بنیاد پرست بھی سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں بنیاد پرستی ایک بڑی مذہبی اور کلیسیائی تحریک بن چکی ہے۔ اخبارات میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنیاد پرستوں نے ملک کے پچھلے دو صدور کو اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بڑی سماجی و سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ بنیاد پرست اپنے آپ کو اصلاحی کہتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اصلاحی نہیں ہیں۔
بنیاد پرست بلاشبہ کلامِ مقدس کی بنیادی سچائیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ کلامِ مقدس کے الہامی اور لاخطا ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، یسوع مسیح کی کنواری سے پیدائش اور اُس کے معجزات پر ایمان رکھتے ہیں، ارتقا کی بجائے وہ تخلیق کے عقیدے کو قبول کرتے ہیں ، وہ یسوع مسیح کے جسمانی طور پر مردوں میں سے زندہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور اُس کی آمدثانی پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ یہ سب سچائیاں بلاشبہ بائبل مقدس کی سچائیاں ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں۔
لیکن صرف ان سچائیوں پر ایمان رکھنا کسی شخص کو اصلاحی نہیں بناتا۔ رومن کاتھولک بھی انہی بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں۔ میں خود ایسے کاتھولک افراد سے ملا ہوں اور ان سے گفتگو کی ہے۔ مگر ہم میں سے کون ایسا ہوگا جو کسی رومن کاتھولک کو اصلاحی کہے؟ یقیناً کوئی نہیں۔
بنیاد پرستی کی نمایاں بات یہ ہے کہ یہ اس تعلیم کی پیروی کرتی ہے جسے برسوں سے آرمینین ازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آرمینین ازم اصلاحی ایمان نہیں ہے۔ تاہم، بہت سے لوگ جو آرمینین عقائد رکھتے ہیں، اصلاحی ہونے کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ وہ فخر سے اپنے آپ کو اصلاحی کہتے ہیں۔ وہ اصلاحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ مسلسل ایسے عقائد پر قائم رہتے ہیں جو سراسر آرمینین ازم پر مبنی ہیں۔
آرمینین ازم کیا ہے یا آرمینین تعلیم کیا ہے؟ یہ کہ نجات کسی لحاظ سے انسان پر منحصر ہے؛ انسان کی مرضی پر، انسان کے فیصلہ پر یا اس طاقت پر جو انسان کو یسوع مسیح کو قبول کرنے یا ردّ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ اصلاحی تعلیم نہیں ہے! آرمینین ازم کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے ازل سے اپنے لیے کسی مخصوص قوم کا چناؤ نہیں کیا بلکہ خدا اُنہیں چنتا ہے جن کے بارے میں وہ پہلے سے جانتا ہے کہ وہ ایمان لائیں گے اور اُنہیں ردّ کرتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ انجیل کو ردّ کریں گے۔ یہ برگزیدگی اور مردودیت کی وہ تعریف ہے جو ایک رومن کیتھولک کاہن نے اس وقت بیان کی جب ہم اس مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے۔ اُس نےاس کو یوں بیان کیا ، تصور کریں کہ آپ ایک اونچی عمارت پر ہیں جہاں سے آپ اس مصروف شہر کے چوراہے کو دیکھ رہے ہیں ۔ تصور کریں کہ دو گاڑیاں مختلف سڑکوں سے ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُس چوراہے کی طرف بڑھ رہی ہیں اور وہ چوراہے سے صرف سو فٹ کے فاصلے پر ہیں۔ آپ ایک صحیح اندازے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دونوں گاڑیاں چونکہ ایک ہی فاصلے پر اورایک جیسی ہی تیر فتار سے آ رہی ہیں، ضرور ٹکرا جائیں گی۔ اسی طرح، خدا پیشگی جانتا ہے کہ کون ایمان لائے گا اور کون انجیل کو ردّ کرے گا، اور اسی بنیاد پر وہ اپنے لوگوں کو چنتا یا رد کرتا ہے۔ یہ اصلاحی تعلیم نہیں ہے۔ یہ آرمینین ازم ہے۔ یہ انجیل کی تحقیر اور کلامِ مقدس کے منافی ہے۔ جو کوئی بھی ایسے عقیدے پر قائم ہو کر کہے کہ وہ اصلاحی ہے، وہ درحقیقت نہیں جانتا کہ وہ کس بات کا دعویٰ کر رہا ہے۔
یہ آرمینیین ازم ہے، اصلاحی تعلیم نہیں کہ مسیح تمام انسانوں کے لیے مؤا۔ یہ ایک عام عقیدہ ہے، اتنا عام کہ اگر کوئی اس کی تردید کرے تو لوگ حیران و ششدر رہ جاتے ہیں جیسے انہوں نے زندگی میں کبھی اور کوئی تعلیم سنی ہی نہ ہو۔ لیکن یہ اصلاحی تعلیم نہیں ہے۔ یہ نہ کبھی تھی، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہو گی!
یہ اصلاحی تعلیم نہیں ہے کہ انجیل، جسے خدا نے دنیا بھر میں منادی کے لیے مقرر کیا ہے، سب انسانوں کے لیے نجات کی ایک عام پیش کش ہے۔ یہ اصلاحی تعلیم نہیں ہے کہ کہا جائے کہ انجیل خدا کی اُس خواہش یا آرزو کا اظہار ہے کہ وہ انجیل کے تمام سامعین کو نجات دینا چاہتا ہے جیسے کوئی شخص بازو پھیلائے لوگوں سے التجا کر رہا ہو کہ وہ آئیں، اُسے قبول کریں، اُس میں آرام پائیں اور اُس سے اُمید حاصل کریں۔ اصلاحی ایمان فیصلہ پسندی نہیں ہے۔ اصلاحی تعلیم یہ نہیں ہے کہ انجیل سب انسانوں کے لیے ایک پیش کش ہے۔
یہ اصلاحی تعلیم نہیں کہ انسان خدائے روح القدس کے کام کی مزاحمت کر سکتا ہے۔ جب خدا کا پاک روح کسی شخص کے دِل میں کام کرتا ہے تو وہ کام لازمی طور پر پورا ہوتا ہے۔ انسان روح القدس کی قوت کو روک نہیں سکتا اور نہ ہی خدا کے ارادے کو ناکام بنا سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص خدا کی نجات بخش قوت کے سامنے مزاحمت کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ وہ ہلاکت (جہنم) کی راہ پر نہیں چل سکتا جبکہ روح القدس اُسے نجات کی طرف لے جانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ یہ تصور کہ کوئی روح القدس کی کوششوں کے باوجود گمراہ رہ سکتا ہے، آرمینین عقیدہ ہے، ریفارمڈ یعنی اصلاحی تعلیم نہیں۔ یہ نہ کبھی تھی، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہو گی!
اِسی طرح،اصلاحی تعلیم یہ نہیں ہے کہ ایک بار خدا کا فرزند ہونا عارضی چیز ہے۔ اصلاحی ایمان یہ ہے کہ جسے خدا نے اپنے بیٹے یا بیٹی کے طور پر قبول کیا، وہ ہمیشہ اُس کا رہے گا۔ یہ سوچ کہ آج کوئی نجات یافتہ ہو، کل پھر برگشتہ ہو جائے اور پھر دوبارہ نجات پائے، آرمینین عقیدہ ہے، اصلاحی تعلیم نہیں۔ یہ نہ کبھی تھی، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہو گی!
یہ بھی اصلاحی تعلیم نہیں کہ خدا سب انسانوں سے یکساں محبت کرتا ہے، سب پر فضل کرتا ہے یا سب کو اپنی برکات دیتا ہے اس امید پر کہ وہ اُس سے محبت کریں اور اُس کی طرف رجوع کریں۔ یہ تعلیم بھی آرمینین ازم کا حصہ ہے۔ جو کوئی ایسے عقائد رکھ کر اپنے آپ کو اصلاحی کہتا ہے، وہ یا تو اصلاحی ایمان کو سمجھتا ہی نہیں یا جان بوجھ کر خدا اور اُس کی کلیسیا کے سامنے جھوٹ بولتا ہے۔
لفظ ریفارمڈ (اصلاحی، مصلح) جان کالون کی اصلاحی تحریک سے نکلا ہے۔ جان کالون کا بنیادی مقصد صرف ظاہری تبدیلی نہیں تھا بلکہ عقائد، کلیسیائی عبادت اور کلیسیائی نظم ونسق کی اصلاح تھا جنہیں رومن کاتھولک کلیسیا نے بری طرح بگاڑ دیا تھا۔
مارٹن لوتھر بھی رومن کاتھولک ازم کا مخالف تھا۔ تاہم، لوتھر کو ریفارمڈ نہیں کہا جاتااس لئے نہیں کہ اُس کے عقائد جان کالون سے مختلف تھے بلکہ اس لیے کہ تحریک اصلاح میں اُس کا کردار یہ تھا کہ وہ ایمان کے ذریعے راستبازی کی سچائی کو روم کی بداعمال، برگشتہ اور بت پرستانہ نظام پاپائیت کے قلعے پر توپ کے گولے کی طرح داغے۔ اُس کے اس حملے نے اُس بڑی عمارت کو زمین بوس کر دیا۔
پھر کالون کے لئے ذمہ داری باقی تھی اور اُس نے اُس بنیاد پر عمارت تعمیر کی اور ایمان کے منظم عقائد کو واضح کیا۔ اس طرح اصلاحی ایمان وہ منظم الہیات ہے جسے جنیوا کے عظیم مصلح جان کالون نے بائبل مقدس کی روشنی میں پیش کیا۔
میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ اصلاحی ایمان دراصل عقائد کا ایک مجموعہ ہے۔ ہمیں اس بات کو بالکل واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے۔ اس معاملے میں ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم ایسے زمانے میں زندگی بسر رہے ہیں جس میں لوگوں کی عقائد میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ لوگ روحیں بچانے کی بات کرتے ہیں۔ غیر ایمانداروں تک پہنچنے کی بات کرتے ہیں۔ لوگ رسالت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں (اور درحقیقت، ہمارے خداوند نے خود فرمایا، تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو [مرقس 15:16]۔ یہ کلیسیا کا مقصد ہے)۔ تاہم، کلیسیا ئی زندگی صرف اس کے مقصد میں ظاہر نہیں ہوتی۔ درحقیقت، جو کلیسیا یہ بھول جاتی ہے کہ اس کی بنیادی ذمہ داری ایمان کے واسطے جانفشانی کرنا ہے جو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا، وہ کلیسیا رسالت کے کام کے قابل بھی نہیں رہتی۔ اس لئے اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ اصلاحی ایمان عقائد کا ایک منظم، واضح، محتاط اور درست مجموعہ ہے۔ یہی اصلاحی ایمان ہے۔ اگر آپ کو عقائد میں دلچسپی نہیں تو آپ کو اصلاحی (ریفارمڈ) کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔
اگر آپ یہ نہیں مانتے کہ کالون نے عقائد کا ایک منظم مجموعہ پیش کیا تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آج رات کالون کی شہرہ آفاق تصنیف مسیحی مذہب کے اصولات کا مطالعہ کریں۔ صرف پانچ منٹ کے مطالعے سے آپ پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ درحقیقت نے منظم عقائد پیش کیے۔
اصلاحی ایمان دراصل عقائد کا ایک منظم مجموعہ ہے۔ یہ کسی ریاضی یا جیومیٹری کی کتاب کی طرح نہیں ہے، جس میں صرف اصول اور نظریات درج ہوں، جن پر یقین کرنا یا نہ کرنا آپ کی روزمرہ زندگی میں کوئی خاص فرق نہ ڈالے سوائے اس کے کہ آپ کو کسی ملازمت کے لیے ریاضی کی کچھ سمجھ درکار ہو۔ بلکہ، عقائد کا یہ مجموعہ دراصل خدا کے متعلق سچائی ہے۔ جو شخص اصلاحی ایمان رکھتا ہے، وہ اس معاملے میں نہایت محتاط ہوتا ہے کیونکہ یہ تعلیمات براہِ راست خدا کے بارے میں ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ سڑک پر جا رہے ہوں اور آپ دیکھیں کہ چند لوگ تمسخرانہ انداز میں آپ کی بیوی کے بارے میں بدزبانی کر رہے ہیں، اس کے لئے برے القاب استعمال کر رہے ہیں اور اس کی عزت پر حملہ کر رہے ہیں تو آپ کا دل برداشت نہیں کرے گا۔ آپ فوراً ان کی بات کا جواب دیں گے، ان کی غلط فہمی دور کریں گے اور اپنی بیوی کی عزت کا دفاع کریں گے۔ آپ ایسا کیوں کریں گے؟ اس لیے کہ آپ اپنی بیوی سے محبت کرتے ہیں اور آپ کو اس کی سچائی کا علم ہے۔ اس کے بارے میں جھوٹے الزامات اور باتیں سن کر آپ کا دل زخمی ہو جاتا ہے کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ لوگ اسے ویسا ہی جانیں جیسی وہ حقیقت میں ہے۔ اسی طرح، جب خدا کے بارے میں غلط باتیں کہی جائیں جب اس کی ذات یا اس کے کاموں کو توڑمروڑ کے پیش کیا جائے تو ایک سچا اصلاحی مسیحی خاموش نہیں رہ سکتا۔ وہ خدا کی سچائی کا دفاع کرے گا کیونکہ وہ خدا سے محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا خدا کو ویسا ہی جانے جیسا وہ حقیقت میں ہے۔
ایک اصلاحی مسیحی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ دنیا خدا کو ویسا ہی جانے جیسا وہ اصل میں ہے۔ وہ نہ صرف خدا کے بارے میں غلط باتوں کو ناپسند کرتا ہے بلکہ اپنے دل و جان سے اُن سے نفرت کرتا ہے جو اپنی انسانی اختراعات، خود ساختہ نظریات یا ذاتی خیالات کے ساتھ خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور خدا کے بارے میں جھوٹی باتیں، بہتان اور لغویات پھیلاتے ہیں۔ اُن تمام لوگوں سے جو کلامِ مقدس کی سچائی کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اصلاحی ایمان خدا کی سچائی سکھاتا ہے ۔ جو اصلاحی ایمان سے واقف ہے اور اس سے محبت کرتا ہے، وہ اس کے لیے غیرت مند ہوتا ہے۔ وہ ایلیاہ نبی کے وہی الفاظ دہراتا ہے جو اس نے جھاؤ کے ایک پیڑ کے نیچے اور پھر کوہِ حورب پر کہے تھے، مجھے خداوند لشکروں کے خدا کے لئے بڑی غیرت آئی (1 سلاطین 14:19)۔
اصلاحی ایمان کیا ہے؟ چونکہ اصلاحی ایمان خدا کے بارے میں سچائی ہے، اس لیے یہ، جیسے کالون نے سکھایا، یہ تعلیم دیتا ہے کہ خداوند ہی اکیلا خدا ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوقات، کاموں اور منصوبوں میں مکمل طور پر خودمختار ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو ارادہ کرتا ہے، اسے ضرور پورا کرتا ہے۔ اصلاحی تعلیم یہ ہے کہ خدا آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ وہ اپنی قدرت کے کلام سے تمام مخلوقات کو سنبھالتا ہے اور اپنی خودمختار قوت سے ہر ایک پر حکومت کرتا ہے، یہاں تک کہ کوئی مخلوق بھی اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ بات صرف آسمان کے ستاروں تک محدود نہیں، جو اپنی مقررہ گردش میں اسی کے حکم سے چلتے ہیں؛ یہ اصول زمین کی ایک چھوٹے سے کیڑے پر بھی لاگو ہوتا ہے حتیٰ کہ بادشاہوں کے دِل بھی اس کے اختیار میں ہیں۔ سلیمان بادشاہ فرماتا ہے، بادشاہ کا دِل خداوند کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اُس کو پانی کے نالوں کی مانند جدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے (امثال 1:21)۔
اصلاحی ایمان ایک مقتدر (حاکمِ مطلق) خدا پر ایمان ہے۔ جیسا کہ یسعیاہ نبی اعلان کرتا ہے کہ حتیٰ کہ اسور جو اُس زمانے کی عالمی طاقت تھی خداوند کے ہاتھ میں ایک کلہاڑا اور ایک ارّہ تھی، تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کاٹے اور تراشے (یسعیاہ 15:10)۔ اگرچہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کو یہودیوں کے شریر ہاتھوں ہیرودیس اور پیلاطس کے حوالہ کیا گیا تو یہ بھی سب خدا کے مقررہ انتظام اور علم سابق کے مطابق ہوا (اعمال 23:2)۔ اصلاحی ایمان یہ ہے جیسا عاموس نبی نے اقرار کیا، کیا یہ ممکن ہے۔۔۔کوئی بلا شہر پر آئے اور خداوند نے اُسے نہ بھیجا ہو (عاموس 6:3).یہ اصلاحی ایمان ہے۔ خداوند حاکم مطلق ہے۔آسمان میں اور زمین میں جو چاہتا ہے، وہی کرتا ہے۔ خداوند بادشاہوں کو تخت پر بٹھاتا ہے اور اپنی مرضی سے گرا دیتا ہے۔
اصلاحی ایمان ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کا تقاضا کرتا ہے، کیا ہمارے عقیدہ میں آسمان اور زمین کے خداوند کی حاکمیت کا کیا مقام ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ کیا ہم ایک قادرِ مطلق خدا کو چاہتے ہیں، اسی کی عبادت کرتے ہیں، اسی کی خدمت کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں؟ یا ہماری تسلی ایک ایسے بت میں ہے جو انسان کی خودمختار مرضی کے سامنے بےبس ہے؟ کیا ہم ایسے خدا کی خدمت کرتے ہیں جو انسانوں کو نجات دینے سے قاصر ہے جنہیں وہ آسمان میں لانا چاہتا ہے، ایک منت کرنے والا خدا، ایک التجا کرنے والا مسیح جبکہ انسان خودمختار ہے کہ جو چاہے کرے؟ ایسے خدا کی مجھے ضرورت نہیں اور نہ ہی میں اُسے چاہتا ہوں۔ مجھے اُس خدا کی ضرورت ہے جو ایک بےبس، گناہ میں ڈوبے ہوئے اور مکمل بگاڑ کے شکار انسان کو نجات دینے پر قادر ہو۔ اگر میرا خدا ایسا نہیں، اگر وہ قادرِ مطلق، حاکمِ کل اور نجات دینے والا نہیں تو پھر میرے لئے کوئی امید نہیں۔
اصلاحی ایمان یہ ہے کہ جیسا کہ کالون نے سکھایا کہ نجات کا پورا عمل آغاز سے لے کر انجام تک مکمل طور پر خدا کی حاکمیت اور قدرت کے تابع ہے۔ انسان اپنی نجات میں کسی بھی طرح سے حصہ نہیں ڈال سکتا۔ نجات مکمل طور پر خدا کا کام ہے، انسان کا نہیں۔ اِسی طرح یہ کہ بنای عالم سے پیشتر خدا نے اپنے لئے ایک قوم کا چناؤ کیا۔ اُس نے یہ انتخاب کسی انسانی عمل، خوبی یا قابلیت کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ صرف اپنے فضل اور ارادے سے کیا۔ایک ایسی قوم جسے اُس نے مسیح کو دے دیا (افسیوں 4:1)۔ یہ لوگ اس کے اپنے ہونے کے لیے مقرر کیے گئے اور اُنہیں اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ آنے والی ابدی جلال والی دنیا میں اُس کے ساتھ ہمیشہ رہیں۔
خدا نے اپنی خودمختار ارادہ کے مطابق مقرر کیا کہ کون سے لوگ ردّ کئے گئے (رومیوں 22:9)۔ اُس نے، اپنے عدل اور انصاف کے اظہار کے طور پر، یہ مقرر کیا کہ ردّ کئے گئے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ جہنم میں اُس کے عدل و انصاف کو ظاہر کریں گے۔
خداوند حاکم مطلق خدا نے اپنے بیٹے کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ تمام انسانوں کے لیے جان دے، بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی بھیڑوں کے لیے جان دے (متی 21:1)۔ جنہیں باپ نے اُسے دیا تھا (یوحنا 37:6) اُن کے لیے اُس نے کفارہ دیا۔ یوں اُس نے اپنی کامل فرمانبرداری کے ذریعے صلیب پر اپنے برگزیدہ لوگوں کے لیے جو اُس کی نظر میں پسندیدہ تھے، ابدی نجات کی کامل تکمیل کر دی۔
اصلاحی ایمان یہ ہے کہ مسیح کا روح جو اب خدا کے دہنے ہاتھ جلال کے ساتھ بیٹھا ہوا سربلند خداوند ہے اپنی نجات دینے والی قدرت میں بالکل ناقابلِ مزاحمت ہے۔ یعنی جب وہ کسی انسان کو نجات دینا چاہتا ہے تو کوئی طاقت اُس کے کام کو روک نہیں سکتی۔ یہ روح خدا کی ساری تخلیق میں کارفرما ہے۔ روح القدس جانتا ہے کہ کون سے لوگ وہ برگزیدہ ہیں جن کے لیے مسیح نے اپنی جان قربان کی اور جن کے لیے اُس نے اپنا قیمتی خون بہایا۔ جب وقت آتا ہے، تو یہ روح اُن کے دلوں میں داخل ہوتا ہے چاہے وہ دل سخت ہوں، بغاوت اور گناہ سے بھرے ہوئے ہوں اور اُن کی اندرونی مزاحمت کو چکنا چور کر دیتا ہے۔ وہ اُن کے غرور، ضد اور خدا کے خلاف دشمنی کی دیواروں کو گرا دیتا ہے۔ یہ روح اُن کے انکار اور بےایمانی کے قلعوں کو فتح کر لیتا ہے۔ پھر جب وہ اُن کے دلوں میں بس جاتا ہے تو اُنہیں اندر سے بدل دیتا ہے۔ وہ گناہ میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو پاک اور خدا کے دوست بنا دیتا ہے۔ جو پہلے خدا کے بارے میں گستاخی کرتے تھے، اُن ہی کے منہ سے اب خدا کی حمد و ستائش ہوتی ہے۔ یوں یہ روح، اپنی مکمل اور ناقابلِ مزاحمت قدرت کے ذریعے، انسان کو گناہ کی غلامی اور بدی کی زنجیروں سے آزاد کر کے ایک نیا مخلوق بنا دیتا ہے، ایسی مخلوق جو خدا کے جلال کے لیے جیتی ہے۔
اصلاحی ایمان یہ ہے جیسا کہ کالون نےتعلیم دی ا کہ انسان اپنی گناہ آلود فطرت کے سبب سے پوری طرح بگاڑ کا شکار ہے (رومیوں 3)۔ اس بگاڑ کی حالت اتنی شدید ہے کہ انسان نہ صرف کوئی حقیقی نیکی کرنے کے قابل نہیں بلکہ وہ نیکی کی آرزو بھی نہیں رکھتا۔ وہ نیکی کرنے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی نیکی اور بھلائی کا طالب ہے۔ اس کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ درحقیقت، انسان کے اندر ہر اُس چیز کے لیے جو بھلائی، راستبازی یا خدا سے تعلق رکھتی ہے، ایک گہری اور سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ انسان کی نجات مکمل طور پر روحالقدس کے خودمختار اور ناقابلِ مزاحمت عمل پر منحصر ہے۔
اصلاحی ایمان یہ ہے جیسا کہ کالون نے تعلیم دی کہ جو ایک بار خدا کا فرزند بن گیا وہ ہمیشہ کے لئے خدا کا فرزند رہتا ہے (فلپیوں 6:1)۔ ہمارے خداوند نے یوحنا 28:10 میں یہی فرمایا، کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہم کبھی گناہ میں گر بھی جائیں یا خدا کے احکام اور راستوں سے کچھ عرصے کے لیے بھٹک جائیں، تب بھی ہم خدا کی نجات سے محروم نہیں ہوتے۔ خدا اپنے مضبوط اور قادر مطلق ہاتھ سے اپنے بچوں کو تھامے رکھتا ہے۔ وہ ہمیں کبھی چھوڑتا نہیں بلکہ اپنے فضل اور محبت کے سبب، چاہے تادیب (سرزنش یا سزا ) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، آخرکار توبہ اور اقرار کے ذریعے واپس بلاتا ہے۔ تب ہم اپنے گھٹنوں پر گرتے اور خدا سے معافی مانگتے ہیں اور روح ہمیں مسیح کی صلیب کے پاس لے جاتا ہے تب ایک بار پھر ہم اپنے نجات دہندہ کے زخمی اور لہولہان جسم سے لپٹ جاتے ہیں۔
اصلاحی ایمان یہ ہے کہ ایمان جس کے ذریعے ہم مسیح سے وابستہ ہوتے ہیں ہماری اپنی کوشش یا قابلیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی بخشش ہے (افسیوں 8:2)۔ خدا نہ صرف ہمیں ایمان لانے کی صلاحیت دیتا یا ایمان لانے پر آمادہ کرتا ہے بلکہ وہ خود ہمارے دِلوں میں ایمان پیدا کرتا ہے.اصلاحی تعلیم یہ ہے کہ انجیل دراصل کوئی عام دعوت نہیں، کوئی پیشکش نہیں، خدا کی آفاقی محبت کا اظہار نہیں اور نہ ہی کسی منت کرنے والے نجات دہندہ کی پیشکش ہے۔ بلکہ جیسا کہ پولس رومیوں 16:1 میں بیان کرتا ہے کہ یہ نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔
یہ اصلاحی تعلیم نہیں ہے کہ خدا تمام انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ تمام انسان اس کی رحم اور فضل کے مستحق ہیں۔ بلکہ، خدا ہر دن برے لوگوں پر غضبناک ہے، جیسا کہ زبور نویس بار بار بیان کرتا ہے (زبور 11:7 وغیرہ)۔ اصلاحی ایمان یہ ہے جیسا کہ سلیمان بادشاہ نے امثال میں بیان کیا ہے کہ شریروں کے گھر پر خداوند کی لعنت ہے لیکن صادقوں کے مسکن پر اُس کی برکت ہے (امثال 33:3)۔ اصلاحی ایمان کی تعلیم یہ بھی ہے کہ خدا کے پاس نافرمانوں کے لیے صرف نفرت اور لعنت ہے کیونکہ جیسا کہ آصف زبور 73 میں بیان کرتا ہے، یقیناً تو اُن کو پھسلنی جگہوں میں رکھتا ہے اور ہلاکت کی طرف دھکیل دیتا ہے (زبور 18:73)۔
اصلاحی ایمان یہ ہے اور جیسا کہ کالون نے تعلیم دی کہ ہر وہ چیز جو اس دنیا میں وقوع پذیر ہوتی ہے، وہ ان لوگوں کی نجات کے لیے ہے جن کے لیے مسیح نے اپنی جان دی (رومیوں 28:8)۔اصلاحی ایمان ان باتوں کو قائم رکھتا ہے کہ خداوند ہی خدا ہے۔ جس کام میں اُس کی خوشنودی ہے، اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ وہ اکیلا حاکم مطلق ہے۔ اسرائیل کا قدوس جس کے لئے تمام تمجید، جلال اور قدرت ہمیشہ کے لئے ہے۔ یہ اصلاحی ایمان ہے۔ فقط یہی اصلاحی ایمان ہے۔
جو شخص ان سچائیوں کو تسلیم نہیں کرتا وہ خود کو اصلاحی نہیں کہلوا سکتا۔ جو کوئی کسی اور عقیدے پر قائم رہتا ہے وہ اپنے آپ کو اصلاحی (ریفارمڈ) کہلوانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں کبھی بھی یہ درست نہیں سمجھا گیا کہ اصلاحی کلیسیا (ریفارمڈ چرچ) یا ایماندار کسی اور تعلیم کو اپنائے نہ مصلح جنیوا کے زمانے میں، نہ آج اور نہ ہی تب تک جب تک خداوند دوبارہ نہ آئے۔
جو لوگ خود کو اصلاحی کہتے ہیں لیکن اس کے برعکس تعلیم دیتے ہیں وہ یا تو لاعلم ہیں یا جان بوجھ کر دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ دکھاوے کے لیےایسا ظاہر کرتے ہیں لیکن اصل میں دوسروں کو گمراہ کر کے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ اصلاحی ایمان کے دشمن ہیں اور ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے۔
خداوند نے بہت واضح الفاظ میں اپنے شاگردوں سے فرمایا، جو میرے ساتھ نہیں وہ میرے خلاف ہے (متی 30:12)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے صرف دو ہی راستے ہیں؛ یا تو آپ خداوند کے ساتھ ہیں یا آپ اس کے مخالف ہیں۔ کوئی درمیانی حالت نہیں ہے جہاں انسان غیرجانبدار رہ کر فیصلہ کر سکتا ہو۔ اصلاحی ایمان کے معاملے میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ آپ یا تو اس کے حق میں ہیں اور پورے دِل و جان سے اس پر ایمان رکھتے ہیں یا اس کے مخالف ہیں۔ یہ ایمان خدا کے کلام اور حاکم مطلق اور خود مختار خدا پر قائم ہے جس نے اپنے آپ کو پاک نوشتوں یعنی بائبل مقدس میں ظاہر کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصلاحی ایمان دنیا اور زندگی کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے یعنی وہ نکتہ نظر جس سے انسان دنیا کو دیکھتا ہے۔
اصلاحی ایمان یہ ہے کہ خدا کا فرزند یعنی وہ برگزیدہ فرزند جو خدا سے تعلق رکھتا ہے دنیا میں ہے لیکن دنیا کا نہیں۔ جیسا کہ یسوع نے یوحنا 14:17 میں فرمایا، جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔ اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ عقیدہ اور عملی زندگی ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ دورحاضرہ میں لوگ عقائد کے بارے میں لاعلمی کا شکار ہیں اور جب لوگ عقائد کی اہمیت کے بارے میں لاپرواہی اور بے اعتنائی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں، تب بھی لوگ بظاہر مذہبی اور نیک نیتی کے ساتھ یہ باتیں کرتے ہیں کہ عقیدہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کے مطابق صرف اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کس طرح گزارتا ہے۔ کیا واقعی مسیحیت یا اصلاحی ایمان صرف اخلاقیات تک محدود ہے؟ بالکل نہیں! کیا یہی وہ موقف ہے جو ہمیں اختیار کرنا چاہیے؟ خدا نہ کرے! بغیر عقیدے کے اخلاقیات بے معنی ہے۔ دنیا ، بے اعتقادی اور بت پرستی کی دنیا نے بھی اپنی تاریخ میں بے شمار اخلاقی معیار کے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ یونانی فلسفے نے بھی ایسے انسان پیدا کیے جو اعلیٰ اخلاقی معیار کے حامل تھے۔ کیا یہ مسیحیت ہے؟ کیا یہ اصلاحی ایمان ہے؟ بالکل نہیں۔ عقیدہ اور زندگی ساتھ چلتے ہیں۔ انسان جو ایمان رکھتا ہے وہ اس کی زندگی کا تعین کرتا ہے۔ اگر اس کی زندگی اس کے ایمان کی بنیاد پر نہ ہو تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔ درحقیقت، انسان کا بائبل مقدس کی سچائی کے بارے میں ایمان رکھنا خود ایک طرزِ زندگی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے تضاد کہا جاتا ہے۔
اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ اگر، جیسا کہ ہمارے زمانے میں عام طور پر مانا جاتا ہے، خدا ہر انسان سے محبت کرتا ہے، ہر انسان اس کے فضل اور رحم کا حصہ ہے، ہر انسان اس کی شفقت، بھلائی اور کرم کا مستحق ہے، اگر ہر انسان اس کے عام فضل کا حقدار ہے، اگر ہر انسان اس کی محبت کا مرکز ہے جو صلیب پر ظاہر ہوئی جہاں مسیح نے تمام انسانوں کے لیے، ہر فرد کے لیے، اپنی جان قربان کی تو اس صورت میں دنیا اور کلیسیا کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔
اگر خدا تمام انسانوں سے محبت کرتا ہے، تمام انسانوں کے ساتھ مہربان ہے اور ہر کسی پر رحم فرماتا ہے تو اس کا اثر دنیا میں عام بھلائی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یقینا تاریخ میں انتہائی برے لوگ بھی موجود ہیں جیسے اسٹالن اور ہٹلر لیکن مجموعی طور پر انسانوں میں بہت سی نیک خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ انسانوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں یعنی فلاح و بہبود کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ کچھ لوگ فنونِ لطیفہ میں شاندار تخلیقات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسے بے مثال تصویریں یا شاندار موسیقی کی دھنیں۔ ایسے لوگ اپنے وسائل اور دولت کو بھی اچھے کاموں میں خرچ کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جیسے اسپتال بنانا یا ضرورت مندوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ لوگ اس گناہ کی دنیا میں اچھے مقاصد کے لیے کوشش کرنے کے قابل ہیں جیسے مثال کے طور پر ایک ایسی دنیا جہاں امن قائم ہو اور جنگیں ختم ہوں۔ آپ دنیا میں ایسے نیک لوگ بھی پائیں گے جو اسقاط حمل کی مخالفت کرتے ہیں، جو ہم جنس پرستی ، جنسی بگاڑ اور بے راہ روی کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر ہم ان تمام اچھی باتوں کو خدا کی مہربانی، رحم اور اس کے روح کے ذریعے انسانوں میں کام کرنے والی بھلائی کا نتیجہ سمجھیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ خدا کا یہ عام فضل کلیسیا اور دنیا کے درمیان موجود گہری کھائی کو پر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ فضل ایک پل کی طرح کام کرتا ہے جو دنیا کو کلیسیا میں اور کلیسیا کو دنیا کے ساتھ شراکت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔عام فضل کلیسیا کو دنیا کے ساتھ مل کر اچھے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ چاہے وہ سائنس کے میدان میں ہو، فلاحی کاموں میں، اخلاقیات میں، سیاست میں (مثلاً کسی کو عہدے پر فائز کرنے کے لیے)، یا معیشت میں نیز ہر شعبے میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ برے اور نیک لوگ کئی مواقع پر ایک ساتھ، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
اصلاحی ایمان اپنے پورے زور سے اس قسم کی سوچ کی شدید مخالف کرتا اور اسے ملعون ٹھہراتا ہے۔ بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوئے میں نہ جتو کیونکہ راست بازی اور بے دِینی میں کیا میل جول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟ مسیح کو بلیعال کے ساتھ کیا موافقت؟ یا ایمان دار کا بے ایمان سے کیا واسطہ؟ اور خدا کے مقدس کو بتوں سے کیا مناسبت ہے؟ کیونکہ ہم زِندہ خدا کا مقدس ہیں۔ چنانچہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں اُن میں بسوں گا اور اُن میں چلوں پھروں گا اور میں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے۔ اِس واسطے خداوند فرماتا ہے کہ اُن میں نکل کر الگ رہو (2 کرنتھیوں 14:6-17 )۔ یہ اصلاحی ایمان ہے دنیا میں خدا کےفرزند کی زندگی کے ہر پہلو کو صاف اور الگ رکھتا ہے۔ یہ تضاد تیزدھار آلے کی مانند فرزند خدا کو دنیا سے الگ کرتا ہے۔
جی ہاں، ہم اس دنیا میں رہتے ہیں، اور شریر بھی اِسی دنیا میں ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، ہم ایک ہی گلی میں رہتے ہیں، ہم ایک ہی دکان سے ضروریہ زندگی کا سامان خریدتے ہیں، ایک جیسا ہی کھانا کھاتے ہیں اور ہم سب خدا کی پیدا کردہ تخلیق کو برابر اور مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں۔ لیکن زندگی کے ہر پہلو میں، بغیر کسی استثنا کے، شریر اپنی زندگی خدا سے نفرت کے اصول پر گذارتا ہے اور ایماندار اپنی زندگی مسیح کے اصول پر۔ پولس بیان کرتا ہے کہ حتیٰ کہ ہمارا غم بھی دنیا کے غم سے مختلف ہے، کیونکہ خدا پرستی کا غم ایسی توبہ پیدا کرتا ہے جس کا انجام نجات ہے اور اُس سے پچھتانا نہیں پڑتا مگر دنیا کا غم موت پیدا کرتا ہے (2 کرنتھیوں 10:7)۔ اسی طرح ہماری خوشی دنیا کی خوشی سے مختلف ہے۔ ہمارے اندر مسیح کے روح کی قدرت سے آسمانی زندگی پیدا ہوئی ہے۔ ہم دنیا کے شہری نہیں بلکہ آسمان کے ہیں۔ ہم زمین پر اجنبی اور مسافر ہیں۔ آپ اس موجودہ دنیا کی چیزوں سے مستقل وابستہ نہیں ہیں۔ آپ کی شہریت اوپر آسمان پر ہے۔ آپ کی زندگی کے سفر کا مقصد آپ کے باپ کا گھر ہے۔ دنیا کی چیزیں صرف اتنی اہمیت رکھتی ہیں جتنی کہ وہ ہماری اس روحانی مسافت میں مددگار ہوں تاکہ آپ بہ طور اجنبی اور مسافر اپنے آسمانی باپ کی شکرگزاری کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ ہم اپنی ساری زندگی مسیح خداوند کی خدمت میں گزارتے ہیں۔ یاد رکھیں، مسیح کی بادشاہی اس دنیا کی نہیں بلکہ آسمان سے ہے (یوحنا 36:18)۔
جان کالون کے دور سے ہی اصلاحی ایمان کا یہ نصب العین رہا ہے کہ اصلاحی کلیسیا ہمیشہ خدا کے کلام سے اصلاح پذیر رہتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ مختصراً، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کلیسیا کبھی بھی جمود میں نہیں رہ سکتی۔ ایک جمود زدہ کلیسیا ایسے ہے جیسے کھڑا ہوا پانی۔ جلد ہی اس پر سبز کیچڑ جم جاتا ہے اور اس سے بدبو آنے لگتی ہے۔ اسی طرح، کلیسیا بھی اگرمتحرک نہ ہو تو خرابی کا شکار ہو جاتی ہے۔ کلیسیا یا تو آگے بڑھتی ہے اور اپنی اصلاح جاری رکھتی ہے یا پیچھے کی طرف پھسلتی ہے اور اپنی اصل شناخت کھو دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی درمیانی حالت نہیں ہے۔ دورِ حاضرہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کلیسیا جو خود کو کلیسیا کہنے کی دعویدار ہے، درحقیقت پیچھے کی طرف جا چکی ہے۔ یہ اتنی پیچھے جا چکی ہے کہ نہ صرف یہ سمجھنا چھوڑ چکی ہے کہ اصلاحی ہونے کا اصل مطلب کیا ہے بلکہ یہ بھی بھول گیا ہے کہ کلیسیا ہونے کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ حالانکہ کلیسیا کے پاس بڑی بڑی عمارتیں ہیں، بڑی لاگت سے چلنے والی سرگرمیاں ہیں، کلیسیا سماجی کاموں کی بات کرتی ہے اور دنیا کے معاملات میں اپنی رائے دیتی اور آواز بلند کرتی ہے مگر حقیقت میں یہ اب کلیسیا نہیں رہی۔
ایک اصلاحی کلیسیا آگے بڑھتی ہے، کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائبل مقدس میں خدا کے عرفان کے بے پناہ خزانے ہیں، جلال، سچائی اور برکت کے عمیق خزانے۔ جنہیں یہاں زمین پر کوئی بھی پوری طرح سمجھ نہیں سکتا (رومیوں 33:11). پولس بیان کرتا ہے کہ جب ہم اسے بائبل مقدس میں دیکھتے ہیں تو ہمیں آئینے میں دھندلا سا دکھائی دیتا ہے (1 کرنتھیوں 12:13)۔ بائبل مقدس ایک آئینے کی مانند ہے۔ ہمارے پیچھے یسوع مسیح درخشاں ہے۔ بائبل مقدس یسوع مسیح کو ہمارے سامنے لاتی ہے اور اس کے جلال کی کچھ عکاسی کرتی ہے۔ مسیح کی یہ جلال دراصل خدا کا وہ مکاشفہ ہے جو ہمیں بائبل مقدس میں نظر آتا ہے۔ جو کچھ ہم وہاں دیکھتے ہیں وہ نہایت خوبصورت اور دلکش ہے لیکن ہم اس کا صرف ایک محدود حصہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پولس بیان کرتا ہے کہ ہم اُس کو روبرو دیکھیں گے (1 کرنتھیوں 12:13)۔ تب ہمیں آئینے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ ہم اس کے ساتھ ہوں گے اور سچائی کو پوری طرح جان لیں گے۔ پھر بھی، بائبل مقدس ایک ایسی کان ہے جس میں، اگر دنیا دس ہزار بار دس ہزار سال بھی قائم رہے، تب بھی وہ سچائیاں موجود رہیں گی جنہیں ہمارے کمزور دماغ محض سمجھنا شروع کرتے ہیں۔ یہ خدا کا مسیح کی صورت میں ظاہر ہونے والا مکاشفہ ہے۔ اصلاحی کلیسیا اسے قبول کرتی ہے۔
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.