Day 10 – King and Son
Journey Through the Psalms: A Thirty-Day Devotional
Written by Mike Velthouse
Translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq
Translated and used by permission of the Reformed Free Publishing Association
Copyright © 2024. All rights reserved.
No part of this text may be reproduced, stored in a retrieval system, distributed to other web locations for retrieval, published in other media, mirrored at other sites, or transmitted in any form or by any means—for example, electronic—without the prior written permission from the publishers.
Reformed Free Publishing Association
1894 Georgetown Center Drive
Jenison, MI 49428
https://www.rfpa.org
دسواں دِن: بادشاہ اور بیٹا
مصنف: مائیک ویلتھاؤس
ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق
زبور 2
کیا آپ جانتے ہیں کہ مسیحائی زبور کسے کہتے ہیں؟ مسیح پرانے عہد نامے میں مستعمل لفظ ہے جس کا مطلب ہے مسح کیا ہوا۔ اسی سے لفظ مسیحائی بنتا ہے یعنی مسیحائی زبور وہ مزامیر ہیں جو آنے والے مسیح یا مسیح موعود کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ کم از کم پندرہ ایسے زبور ہیں جو واضح طور پر یسوع اور اس کے کام کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا پھر ایسی پیش گوئیاں بیان کرتے ہیں جو اُس میں پوری ہوئیں۔ نئے عہد نامے میں رسولوں نے انہی زبوروں کی آیات سے ثابت کیا کہ یسوع ہی مسیح موعود ہے۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ انہوں نے زبور 2 کو کیسے استعمال کیا۔ یہ زبور اگرچہ داؤد بادشاہ نے لکھا تھا لیکن اس میں اصل اشارہ مستقبل کے اس شاہی فرزند کی طرف تھا جو داؤد کی نسل سے آئے گا یعنی بادشاہوں کے بادشاہ، ہمارے خداوند یسوع مسیح کی طرف۔
شروع کی دو آیات میں ہی داؤد ایک خراب جہان کا منظر بیان کرتا ہے، جہاں قومیں طیش میں ہیں، حاکم آپس میں مشورہ کر رہے ہیں اور لوگ خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف صف آرائی کر رہے ہیں۔ غور کریں کیا آج کی دنیا کا حال بھی ایسا ہی نہیں؟ جب رسولوں نے کمال دلیری سے کلام سنانے کے لئے دعا کی تو انہوں نے اس زبور کو سمجھا کہ بے دین اور ناراست لوگوں نے آپس میں مل کر یسوع کو قتل کرکے کیسے زبور 2 کی پیش گوئیوں کو پورا کیا۔ قوموں نے کیوں دھوم مچائی؟ اور اُمتوں نے کیوں باطل خیال کئے؟ خداوند اور اُس کے مسیح کی مخالفت کو زمین کے بادشاہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور سردار جمع ہوگئے (اعمال 25:4-26)۔ رسول یہ سمجھ گئے کہ زبور میں مذکور قومیں، لوگ، بادشاہ اور حاکم دراصل ہیرودیس اور پنطس پیلاطس، غیر قومیں اور اسرائیل کے لوگ ہیں (آیت 27)۔
خدا نے ان سب بے دِین اور ناراست لوگوں کے اس کام پر کیا کیا؟ زبور 4:2 بیان کرتی ہے کہ خدا اِن پر ہنسا۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ خدا مضحکہ اُڑا رہا ہے؟ یہ قومیں، لوگ، بادشاہ اور حاکم یہ خیال کر رہے تھے کہ انہوں نے یسوع کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ مگر خدا نے نہ صرف مسیح کی مصلوبیت کو ہماری نجات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا بلکہ یسوع کے جی اُٹھنے اور آسمان پر صعود کے ذریعے خدا نے اپنے بادشاہ کو اپنے کوہِ مقدس صیون پر بٹھا دِیا (آیت 6)۔ خدا نے یسوع کو قومیں میراث میں دیں اور زمین کے انتہائی حصے اس کی ملکیت ٹھہرائے (آیت 8)۔
اس کا مطلب ہے کہ یسوع آسمان میں اپنے جلالی تخت پر بہ طور بادشاہ براجمان ہے۔ وہ ہر چیز کو خدا کے جلال اور اپنی کلیسیا کی نجات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مسیح کا اختیار ساری تخلیق پر ہے چاہے قومیں طیش میں ہوں، حاکم سازش کریں یا لوگ صف آرائی کریں۔ مکاشفہ میں یوحنا رسول نے زبور 9:2 کا دو بار حوالہ دیا جب وہ بیان کرتا ہے کہ یسوع اس بگڑی ہوئی شریر دنیا اور خراب جہان کی عدالت کرے گا کہ وہ لوہے کے عصا سے قوموں پر حکومت کرے گا (مکاشفہ 5:12 اور 15:19)۔
لیکن یسوع صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ بیٹا بھی ہے۔ جب پولس رسول نے اپنے پہلے مشنری سفر کے دوران میں انطاکیہ پسدیہ میں منادی کی تو اس نے مسیح کے جی اٹھنے کی خوشخبری سنائی اور بتایا کہ یہ اس کے لوگوں کے لیے کیسے فائدہ مند ہے۔ پولس نے کہا کہ خدا نے یسوع کو جلا کر ہماری اولاد کے لئے اُسی وعدہ کو پورا کیا۔ چنانچہ دوسرے مزمور میں لکھا ہے کہ تو میرا بیٹا ہے۔ آج تو مجھ سے پیدا ہوا (اعمال 33:13)۔ کیا آپ کو یہ بات سنی سنائی لگتی ہے؟ یاد کریں، یسوع کے بپتسمہ کے وقت خدا کا روح کبوتر کی مانند آسمان سے اُترا اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں (متی 3:17)۔ یسوع باپ کا جلایا ہوا بیٹا ہے، پاک تثلیث کا دوسرا اقنوم۔
تو اب ہمارا ردّعمل اِس بادشاہ اور بیٹے کے لیے کیا ہونا چاہیے؟ زبور 12:2 بیان کرتی ہے کہ بیٹے کو چومو۔ یعنی اُس کے تابع ہو جائیں، اُس کے آگے جھکیں اور نہایت عزت،تعظیم اور ادب کے ساتھ اُس کے حضور گھٹنے ٹیکیں۔ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ بادشاہوں کا بادشاہ۔ مسح کیا ہوا مسیح۔ سب چیزوں کا خالق۔ ہمارا فدیہ دینے والا۔بہ طور حاکم خداوند اُس پر پورا بھروسہ کریں کیونکہ خدا ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے (آیت 12)۔
وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گا۔
خداوند اُن کا مضحکہ اُڑائے گا۔
تب وہ اپنے غضب میں اُن سے کلام کرے گا
اور اپنے قہر شدید میں اُن کو پریشان کر دے گا۔
میں تو اپنے بادشاہ کو اپنے کوہِ مقدس صیون پر بٹھا چکا ہوں۔
میں اُس فرمان کو بیان کروں گا۔
خداوند نے مجھ سے کہا تو میرا بیٹا ہے۔
آج تو مجھ سے پیدا ہوا۔
مجھ سے مانگ اور میں قوموں کو تیری میراث کے لئے
اور زمین کے انتہائی حصے تیری ملکیت کے لئے تجھے بخشوں گا۔
تو اُن کو لوہے کے عصا سے توڑے گا۔
کمہار کے برتن کی طرح تو اُن کو چکنا چور کر ڈالے گا۔
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.